سلسله طريقت اور بيعت
سلسلۂ طریقت میں ہر ایک داخل ہونے والے کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ وہ کیوں اور کس سے بیعت ہورہا ہے؟ اگر یہ بھی آگہی نہ ہوئی تو بیعت مفيد نہیں ہوتی۔
بیعت ہونے کے بعد سب سے اہم وظیفہ یہ ہے کہ اپنے ذمے فرائض اور واجبات کی ادائیگی ضروری جانے خواہ وہ واجبات اللہ تعالیٰ سے متعلق ہوں یا بندوں سے متعلق ہوں، مثلاً: مہر اور قرضے کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔ ولیمہ یا عقیقے سے زیادہ اہم مہر کی ادائیگی ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ادا کرتا رہے۔ بیوی کو اطلاع کردے بہتر، لیکن اگر کسی عذر یا فساد کی وجہ سے بتلانا مناسب نہ ہو تو اپنے ذہن میں رکھے۔ نفلی صدقات کے مقابلے میں قرضے کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی جو مقروض تھے اور ادائیگی کو کوئی چیز نہ تھی۔
نوافل یعنی اشراق، چاشت، اوّابین، تہجد میں مشغول ہونے سے زیادہ بہتر قضا شدہ فرض نمازوں کی ادائیگی ہے۔ ایسے ہی مسنون روزوں کی ادائیگی سے زیادہ بہتر قضا شدہ فرض روزوں کی ادائیگی ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے مسنون روزوں مثلاً شش عید، عرفہ، محرم وغیرہ روزوں کے رکھتے وقت قضاء شدہ فرض روزے کی نیت کرلی جائے، ایسے ہی صلاۃِ مسونہ کے اوقات میں فرض نماز کی ادائیگی کی جائے۔ اس طرح فرض کی ادائیگی بھی ہوجائے گی اور اوقاتِ مسنونہ کی برکت اور فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی۔ اتنی بات تو ہر مسلمان مرد وعورت بالغ کے لئے ضروری ہے۔
اگر کوئی طریقت اور سلوک کی تعلیم حاصل کرنا چاہے اور اس میں ترقی چاہتا ہے کہ تو بغیر اس کے ممکن نہیں ہے جو عرض کردیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنے کا نام طریقت ہے۔ اور اسی سے اخلاصِ نیت پیدا ہوتی ہے اور یہی تمام مجاہدوں کا ماحصل ہے۔
سلسلۂ طریقت میں ہر ایک داخل ہونے والے کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ وہ کیوں اور کس سے بیعت ہورہا ہے؟ اگر یہ بھی آگہی نہ ہوئی تو بیعت مفيد نہیں ہوتی۔
بیعت ہونے کے بعد سب سے اہم وظیفہ یہ ہے کہ اپنے ذمے فرائض اور واجبات کی ادائیگی ضروری جانے خواہ وہ واجبات اللہ تعالیٰ سے متعلق ہوں یا بندوں سے متعلق ہوں، مثلاً: مہر اور قرضے کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔ ولیمہ یا عقیقے سے زیادہ اہم مہر کی ادائیگی ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ادا کرتا رہے۔ بیوی کو اطلاع کردے بہتر، لیکن اگر کسی عذر یا فساد کی وجہ سے بتلانا مناسب نہ ہو تو اپنے ذہن میں رکھے۔ نفلی صدقات کے مقابلے میں قرضے کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی جو مقروض تھے اور ادائیگی کو کوئی چیز نہ تھی۔
نوافل یعنی اشراق، چاشت، اوّابین، تہجد میں مشغول ہونے سے زیادہ بہتر قضا شدہ فرض نمازوں کی ادائیگی ہے۔ ایسے ہی مسنون روزوں کی ادائیگی سے زیادہ بہتر قضا شدہ فرض روزوں کی ادائیگی ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے مسنون روزوں مثلاً شش عید، عرفہ، محرم وغیرہ روزوں کے رکھتے وقت قضاء شدہ فرض روزے کی نیت کرلی جائے، ایسے ہی صلاۃِ مسونہ کے اوقات میں فرض نماز کی ادائیگی کی جائے۔ اس طرح فرض کی ادائیگی بھی ہوجائے گی اور اوقاتِ مسنونہ کی برکت اور فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی۔ اتنی بات تو ہر مسلمان مرد وعورت بالغ کے لئے ضروری ہے۔
اگر کوئی طریقت اور سلوک کی تعلیم حاصل کرنا چاہے اور اس میں ترقی چاہتا ہے کہ تو بغیر اس کے ممکن نہیں ہے جو عرض کردیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنے کا نام طریقت ہے۔ اور اسی سے اخلاصِ نیت پیدا ہوتی ہے اور یہی تمام مجاہدوں کا ماحصل ہے۔
معمولات
تلاوتِ قرآن، تسبیحات، استغفار، درود شریف۔
تلاوتِ قرآن، تسبیحات، استغفار، درود شریف۔
تلاوتِ قرآن
تلاوتِ قرآن شریف سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں۔ روزانہ بلاناغہ قرآن شریف تلاوت کرنا چاہئے كوشش كرے كه كم از كم ايك پاره كي تلاوت كرے اگر يه ممكن نه هو تو آدها سيپاره هي سهي اگر يه بهي ممكن نه هو تو روزانه تلاوت تو ضرور كرے خواہ دس آیات ہی ہوں اگر پڑھنا نہیں جانتا تو پڑھنے کی کوشش کرے۔ اتنے خود پڑھنا آئے تب تك دوسروں سے سنا کرے۔ وہ لوگ کتنے عجیب ہیں کہ اخبار تو پڑھتے ہیں لیکن قرآن نہیں پڑھتے۔
تسبیحات
تسبیحات میں مندرجه زيل كا إهتمام كيا جائے
سُبحـانَ اللہ والحـمـدُ للہ ولا إلـهَ إلا اللہ واللہ أكبْـر و لا حـولَ ولا قـوةَ إلا باللہ
صبح و شام - سو سو مرتبه
اس کے علاوہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ بھی سو بار پڑھ لیا کریں۔ ہر دو وقت ان تسبیحات کی پابندی اور اسی کے ساتھ ساتھ سو سو بار درود شریف اور استغفار بھی پڑھا کریں۔ چلتے پھرتے ہر حال میں استغفار پڑھنے کو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے بہت مفید قرار دیا ہے۔
درود شریف کے لئے عشاء کا وقت سونے سے پہلے زیادہ مناسب ہے۔ خاص طور سے شب جمعہ اور جمعہ کے دن درود شریف کا اہتمام کرنا چاہئے۔ درود شریف کے کلمات اور صیغوں پر مشتمل دلائل الخیرات مشہور اور مشائخ کے یہاں معمول بہا کتاب ہے۔ اس میں سات منزل ہیں ایک منزل روز پڑھ لینا چاہئے۔ اس کتاب میں حوائج اور ضروریات کے لئے درودِ ’’تنجینا‘‘ بھی ہے اس کو سو مرتبہ روزآنہ پڑھ لینا بہت سی بلاؤں سے کفایت کرتا ہے اس کو یاد کرلینا چاہئے۔ ہمارے سلسلے میں درود شریف کے دو صیغے زیادہ رائج ہیں
(۱)أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ کُلِّ شَیْئٍ مَعْلُوْمٌ لَکَ۔
(۲) أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَ تَرضیٰ وَ بِعَدَدِ مَا تُحِبُّ وَتَرضٰی۔
یہ دونوں درود شریف حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ اور حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کے پسندیدہ ہیں۔
(۳) اسی کے ساتھ اگر وقت ہو تو دعاؤں کے لئے کتاب ’’حزب الاعظم‘‘ کی ایک منزل پڑھنا چاہئے۔
یہ دعائیں جناب ملا علی قاری نے جمع کی ہیں۔ قرآن پاک اور احادیث میں جس قدر دعاء کے کلمات آئے ہیں اس کتاب میں جمع کردئیے ہیں۔ اس طرح اس کی سات منزل مقرر کردئیے ہیں۔ روزآنہ ایک منزل پڑھ لینا چاہئے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی مسلسلات میں اور حضرت شیخ عبدالقددر جیلانیؒ نے اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں مسبعاتِ عشر نقل کئے ہیں۔
خیروبرکت اور ازالۂ اثرات اور آسیب اور حفاظت کے لئے اس کا پڑھ لینا مشائخ نے مفید لکھا ہے وہ یہ ہیں
سورۂ فاتحہ ۷/بار
قل أعوذ برب الفلق ۷/بار
قل أعوذ برب الناس ۷/بار
قل ھو اللہ أحد ۷/بار
قل یأیہا الکافرون ۷/بار
آیت الکرسی ۷/بار
سبحان اللہ والحمد للہ ولاالٰہ إلا اللہ واللہ اکبر ۷/بار
درود شریف ۷/بار
استغفار ۷/بار
فرض اور نفل نمازيں
پنج وقتہ نمازیں جماعت سے ادا کرنا چاہئے۔ تہجد کی نماز کی کوشش کرنا چاہئے کہ بغیر اس کے مقامِِ ولایت حاصل نہیں ہوتا، اشراق، چاشت، اور بعد مغرب کے نوافل کی پابندی ہوجائے تو بہتر ہے۔ چاشت کی نماز پڑھنے والوں کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے صالحین میں شمار کیا ہے۔
کلمہ طیبہ
کلمہ طیبہ کثرت سے پڑھنا چاہئے۔ اگر ہوسکے تو حالات کے اعتبار سے کم از کم چھ ہزار مرتبہ اسم ذات ’’اللہ‘‘ خاموشی سے پڑھنا چاہئے۔ حالات کے مطابق تعداد بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’پاس انفاس، ذکر جہری، نفی واثبات، ذکر قلبی، مراقبہ‘‘ کسی کامل شیخ سے حاصل کرنا چاہئے۔ کامل شیخ جاہل پیر نہیں ہوتے؛ بلکہ وہ ہوتے جو طریقت کے ساتھ شریعت کے بھی عالم ہوں سیاسی نہ ہوں۔
پاس انفاس
پاس انفاس کے معنی ہیں: سانس پردھیان دینا۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ صبح وشام تنہائی میں سانس پر اس دھیان جمائے کہ جب سانس اوپر کو آئے تو لفظ’’ اللہ ‘‘اور سانس چھوڑے تو ’’ھو‘‘ زبان کو حرکت نہ ہونا چاہئے اور اس مشق کو بڑھانا چاہئے۔ اس کے یاد کرنے کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ ناک کے دونوں نکساروں پر نظر جمائے، مشق کرلینے سے یہ ذکر ہروقت جاری ہوجاتا ہے اور پھر سونے کی حالت میں بھی جاری ہونے لگتا ہے۔ اس میں پختگی کے بعد مراقبے کی منزل شروع ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
حرام سے پرہیز
ہر ایک حرام سے پرہیز کرے۔ ایک حرام سے بچنا سو نیک کام کرنے سے بہتر ہے۔ دورانِ ریاضت دماغی تقویت کے لئے کچھ کھانا چاہئے، مثلاً خمیرہ گاؤں زباں سادہ تاکہ دماغ میں خشکی نہ ہونے پائے ورنہ مالیخولیا کا اندیشہ ہے اور آدمی وہمی ہوجاتا ہے، بعض دفعہ صفراوی مزاج کے آدمی کو چمک دکھائی دے جاتی ہے تو وہ اپنے کو ولی گمان کرلیتا ہے، اللہ تعالیٰ سب كي مدد اور حفاظت فرمائے۔ آمین
دینی کتابوں کا مطالعه
محاسبۂ نفس کے ساتھ دینی کتابوں کا مطالعہ بھی کرلینا چاہئے۔
مسنون دعائیں۔ ان دعاؤں کو زبانی یاد کرلینا چاہئے، سب دعاؤں کو عمل میں لانے کے لئے مداومت کرنے سے بھی قلب جاری ہوجاتا ہے۔
فتوح الغیب
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مشہور کتاب ہے، بہت فائدہ ہے اس کو پڑھتے رہنا چاہئے۔
مواعظ ِ غوث الاعظم۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مواعظ حسنہ کا مجموعہ ہے بلاناغہ پڑھنا چاہئے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ۔
تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور تذکرۃ الرشید، تذکرۃ الخلیل، انفاسِ قدسیہ، سوانح حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دوسرے بزرگوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرتے رہنا چاہئے، فائدہ ہوگا۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ يه جو کچھ لکھا ہے یہ تصوف اور سلوک کا کورس نہیں ہے کہ پڑھ لیا اور بات ختم ہوگئی بلکہ منشاء اس قدر ہے کہ ہم کس طرح سچے مسلمان اور اللہ تعالیٰ کے تابعدار بندے بنیں، یہی کوشش عمر بھر رہنا چاہئے، یہ خیال بھی نہ لانا چاہئے کہ ہم کسی قابل ہوگئے ہیں یا ہم کو ولی یا بزرگ بن جانا چاہئے، بس کوشش رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا تابعدار بندہ بنالے کہ ہم تمام انسانوں اور مسلمانوں کے لئے مفید ہوں اور ایمان کے ساتھ زندگی گزر جائے اور ایمان پر ہی خاتمہ ہوجائے۔ آمین ثم آمین
اوپر جو اذکار اور اوراد وظائف از قبیل عبادت ذکر کئے گئے ہیں، ان سے قلب میں صفائی اور جلاء پیدا ہوتا ہے اور احساس شعور جاگنے لگتا ہے لیکن اسی کے ساتھ تہذیب نفس اور تزکیۂ باطن بہت ضروری ہے، اس سے اخلاقِ حسنہ اور عاداتِ پسندیدہ پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ بھی سو بار پڑھ لیا کریں۔ ہر دو وقت ان تسبیحات کی پابندی اور اسی کے ساتھ ساتھ سو سو بار درود شریف اور استغفار بھی پڑھا کریں۔ چلتے پھرتے ہر حال میں استغفار پڑھنے کو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے بہت مفید قرار دیا ہے۔
درود شریف کے لئے عشاء کا وقت سونے سے پہلے زیادہ مناسب ہے۔ خاص طور سے شب جمعہ اور جمعہ کے دن درود شریف کا اہتمام کرنا چاہئے۔ درود شریف کے کلمات اور صیغوں پر مشتمل دلائل الخیرات مشہور اور مشائخ کے یہاں معمول بہا کتاب ہے۔ اس میں سات منزل ہیں ایک منزل روز پڑھ لینا چاہئے۔ اس کتاب میں حوائج اور ضروریات کے لئے درودِ ’’تنجینا‘‘ بھی ہے اس کو سو مرتبہ روزآنہ پڑھ لینا بہت سی بلاؤں سے کفایت کرتا ہے اس کو یاد کرلینا چاہئے۔ ہمارے سلسلے میں درود شریف کے دو صیغے زیادہ رائج ہیں
(۱)أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ کُلِّ شَیْئٍ مَعْلُوْمٌ لَکَ۔
(۲) أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَ تَرضیٰ وَ بِعَدَدِ مَا تُحِبُّ وَتَرضٰی۔
یہ دونوں درود شریف حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ اور حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کے پسندیدہ ہیں۔
(۳) اسی کے ساتھ اگر وقت ہو تو دعاؤں کے لئے کتاب ’’حزب الاعظم‘‘ کی ایک منزل پڑھنا چاہئے۔
یہ دعائیں جناب ملا علی قاری نے جمع کی ہیں۔ قرآن پاک اور احادیث میں جس قدر دعاء کے کلمات آئے ہیں اس کتاب میں جمع کردئیے ہیں۔ اس طرح اس کی سات منزل مقرر کردئیے ہیں۔ روزآنہ ایک منزل پڑھ لینا چاہئے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی مسلسلات میں اور حضرت شیخ عبدالقددر جیلانیؒ نے اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں مسبعاتِ عشر نقل کئے ہیں۔
خیروبرکت اور ازالۂ اثرات اور آسیب اور حفاظت کے لئے اس کا پڑھ لینا مشائخ نے مفید لکھا ہے وہ یہ ہیں
سورۂ فاتحہ ۷/بار
قل أعوذ برب الفلق ۷/بار
قل أعوذ برب الناس ۷/بار
قل ھو اللہ أحد ۷/بار
قل یأیہا الکافرون ۷/بار
آیت الکرسی ۷/بار
سبحان اللہ والحمد للہ ولاالٰہ إلا اللہ واللہ اکبر ۷/بار
درود شریف ۷/بار
استغفار ۷/بار
فرض اور نفل نمازيں
پنج وقتہ نمازیں جماعت سے ادا کرنا چاہئے۔ تہجد کی نماز کی کوشش کرنا چاہئے کہ بغیر اس کے مقامِِ ولایت حاصل نہیں ہوتا، اشراق، چاشت، اور بعد مغرب کے نوافل کی پابندی ہوجائے تو بہتر ہے۔ چاشت کی نماز پڑھنے والوں کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے صالحین میں شمار کیا ہے۔
کلمہ طیبہ
کلمہ طیبہ کثرت سے پڑھنا چاہئے۔ اگر ہوسکے تو حالات کے اعتبار سے کم از کم چھ ہزار مرتبہ اسم ذات ’’اللہ‘‘ خاموشی سے پڑھنا چاہئے۔ حالات کے مطابق تعداد بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’پاس انفاس، ذکر جہری، نفی واثبات، ذکر قلبی، مراقبہ‘‘ کسی کامل شیخ سے حاصل کرنا چاہئے۔ کامل شیخ جاہل پیر نہیں ہوتے؛ بلکہ وہ ہوتے جو طریقت کے ساتھ شریعت کے بھی عالم ہوں سیاسی نہ ہوں۔
پاس انفاس
پاس انفاس کے معنی ہیں: سانس پردھیان دینا۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ صبح وشام تنہائی میں سانس پر اس دھیان جمائے کہ جب سانس اوپر کو آئے تو لفظ’’ اللہ ‘‘اور سانس چھوڑے تو ’’ھو‘‘ زبان کو حرکت نہ ہونا چاہئے اور اس مشق کو بڑھانا چاہئے۔ اس کے یاد کرنے کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ ناک کے دونوں نکساروں پر نظر جمائے، مشق کرلینے سے یہ ذکر ہروقت جاری ہوجاتا ہے اور پھر سونے کی حالت میں بھی جاری ہونے لگتا ہے۔ اس میں پختگی کے بعد مراقبے کی منزل شروع ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
حرام سے پرہیز
ہر ایک حرام سے پرہیز کرے۔ ایک حرام سے بچنا سو نیک کام کرنے سے بہتر ہے۔ دورانِ ریاضت دماغی تقویت کے لئے کچھ کھانا چاہئے، مثلاً خمیرہ گاؤں زباں سادہ تاکہ دماغ میں خشکی نہ ہونے پائے ورنہ مالیخولیا کا اندیشہ ہے اور آدمی وہمی ہوجاتا ہے، بعض دفعہ صفراوی مزاج کے آدمی کو چمک دکھائی دے جاتی ہے تو وہ اپنے کو ولی گمان کرلیتا ہے، اللہ تعالیٰ سب كي مدد اور حفاظت فرمائے۔ آمین
دینی کتابوں کا مطالعه
محاسبۂ نفس کے ساتھ دینی کتابوں کا مطالعہ بھی کرلینا چاہئے۔
مسنون دعائیں۔ ان دعاؤں کو زبانی یاد کرلینا چاہئے، سب دعاؤں کو عمل میں لانے کے لئے مداومت کرنے سے بھی قلب جاری ہوجاتا ہے۔
فتوح الغیب
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مشہور کتاب ہے، بہت فائدہ ہے اس کو پڑھتے رہنا چاہئے۔
مواعظ ِ غوث الاعظم۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مواعظ حسنہ کا مجموعہ ہے بلاناغہ پڑھنا چاہئے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ۔
تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور تذکرۃ الرشید، تذکرۃ الخلیل، انفاسِ قدسیہ، سوانح حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دوسرے بزرگوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرتے رہنا چاہئے، فائدہ ہوگا۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ يه جو کچھ لکھا ہے یہ تصوف اور سلوک کا کورس نہیں ہے کہ پڑھ لیا اور بات ختم ہوگئی بلکہ منشاء اس قدر ہے کہ ہم کس طرح سچے مسلمان اور اللہ تعالیٰ کے تابعدار بندے بنیں، یہی کوشش عمر بھر رہنا چاہئے، یہ خیال بھی نہ لانا چاہئے کہ ہم کسی قابل ہوگئے ہیں یا ہم کو ولی یا بزرگ بن جانا چاہئے، بس کوشش رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا تابعدار بندہ بنالے کہ ہم تمام انسانوں اور مسلمانوں کے لئے مفید ہوں اور ایمان کے ساتھ زندگی گزر جائے اور ایمان پر ہی خاتمہ ہوجائے۔ آمین ثم آمین
اوپر جو اذکار اور اوراد وظائف از قبیل عبادت ذکر کئے گئے ہیں، ان سے قلب میں صفائی اور جلاء پیدا ہوتا ہے اور احساس شعور جاگنے لگتا ہے لیکن اسی کے ساتھ تہذیب نفس اور تزکیۂ باطن بہت ضروری ہے، اس سے اخلاقِ حسنہ اور عاداتِ پسندیدہ پیدا ہوتے ہیں۔