موت کی حقیقت اور عالمِ برزخ
شهيدِ إسلام حضرت مولانا يوسف لدهيانوي صاحب رحمة لله عليه كے جوابات
شهيدِ إسلام حضرت مولانا يوسف لدهيانوي صاحب رحمة لله عليه كے جوابات
موت کی اصل حقیقت
س… موت کی اصل حقیقت کیا ہے؟
س… موت کی اصل حقیقت کیا ہے؟
ج… موت کی حقیقت مرنے سے معلوم ہوگی، اس سے پہلے اس کا سمجھنا سمجھانا مشکل ہے، ویسے عام معنوں میں روح و بدن کی جدائی کا نام موت ہے۔
مقررہ وقت پر انسان کی موت
س… قرآن و سنت کی روشنی میں بتایا جائے کہ انسان کی موت وقت پر آتی ہے یا وقت سے پہلے بھی ہوجاتی ہے؟
ج… ہر شخص کی موت وقت مقرره ہی پر آتی ہے، ایک لمحہ کا بھی آگا پیچھا نہیں ہوسکتا۔
اگر مرتے وقت مسلمان کلمہ طیبہ نہ پڑھ سکے تو کیا ہوگا؟
-س… اگر کوئی مسلمان مرتے وقت کلمہ طیبہ نہ پڑھ سکے اور بغیر كلمه پڑھے انتقال کرجائے تو کیا هو گا وہ مسلمان مرا یا اس کی حیثیت کچھ اور ہوگی؟
ج… اگر وہ زندگی بھر مسلمان رہا ہے تو اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا اور مسلمانوں کا برتاوٴ اس کے ساتھ کیا جائے گا۔
کیا قبر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی شبیہ دکھائی جاتی ہے؟
س… ہماری فیکٹری میں ایک صاحب فرمانے لگے کہ جب کسی مسلمان کا انتقال ہوجائے اور اس سے سوال جواب شروع ہوتے ہیں تو جب حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو قبر میں بذاتِ خود حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم تشریف لاتے ہیں۔ تو اس پر دوسرے صاحب کہنے لگے کہ نہیں! حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم خود نہیں آتے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی شبیہ مردہ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ تو مولانا صاحب! ذرا آپ وضاحت فرمادیں حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم پورے جسمانی وجود کے ساتھ قبر میں آتے ہیں یا ان کی ایک طرح سے تصویر مردے کے سامنے پیش کی جاتی ہے، اور اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے بارے میں پوچھا جاتا ہے؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خود تشریف لانا یا آپ کی شبیہ کا دکھایا جانا کسی روایت سے ثابت نہیں۔
مردہ دفن کرنے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے
س… بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کو دفن کیا جاتا ہے اور دفن کرنے والے لوگ جب واپس آتے ہیں تو مردہ ان واپس جانے والوں کی چپل کی آواز سنتا ہے، عذابِ قبر حق ہے یا نہیں؟
ج… عذابِ قبر حق ہے، اور مردے کا واپس ہونے والوں کے جوتے کی آہٹ کو سننا صحیح بخاری کی حدیث میں آیا ہے۔
(ج:۱ ص:۱۷۸)
کیا مردے سلام سنتے ہیں؟
س… سنا ہے کہ قبرستان میں جب گزر ہو تو کہو: “السلام علیکم یا اہل القبور” جس شہر خاموشی میں آپ حضرات غفلت کی نیند سو رہے ہیں، اسی میں میں بھی ان شاء اللہ آکر سووٴں گا۔ سوال یہ ہے کہ جب مردے سنتے نہیں تو سلام کیسے سن لیتے ہیں؟ اور اگر سلام سن لیتے ہیں تو ان سے اپنے لئے دعا کرنے کو بھی کہا جاسکتا ہے؟
ج… سلام کہنے کا تو حکم ہے، بعض روایات میں ہے کہ وہ جواب بھی دیتے ہیں، اور سلام کہنے والے کو پہچانتے بھی ہیں، مگر ہم چونکہ ان کے حال سے واقف نہیں، اس لئے ہمیں صرف اس چیز پر اکتفا کرنا چاہئے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے حکم فرمایا ہے۔
قبر کا عذاب برحق ہے؟
س… فرض کریں تین اشخاص ہیں تینوں کی عمریں برابر ہیں اور تینوں برابر کے گناہ کرتے ہیں لیکن پہلا شخص صدیوں پہلے مرچکا ہے، دوسرا قیامت سے ایک روز پہلے مرے گا اور جبکہ تیسرا قیامت تک زندہ رہتا ہے۔ اگر قبر کا عذاب برحق ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا تو اس رو سے پہلا شخص صدیوں سے قیامت تک قبر کے عذاب میں رہے گا، دوسرا شخص صرف ایک دن قبر کا عذاب اٹھائے گا، جبکہ تیسرا قبر کے عذاب سے بچ جائے گا، کیونکہ وہ قیامت تک زندہ رہتا ہے، لیکن قبر کے عذاب میں یہ تفریق نہیں ہوسکتی کیونکہ تینوں کی عمریں برابر ہیں اور گناہ بھی برابر ہیں۔ آپ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
ج… قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے اورا س بارے میں قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث متواترہ وارد ہیں، ایسے امور کو محض عقلی شبہات کے ذریعہ ردّ کرنا صحیح نہیں، ہر شخص کے لئے برزخ کی جتنی سزا حکمتِ الٰہی کے مطابق مقرر ہے وہ اس کو مل جائے گی، خواہ اس کو وقت کم ملا ہو یا زیادہ، کیونکہ جن لوگوں کا وقت کم ہو، ہوسکتا ہے کہ ان کی سزا میں اسی تناسب سے اضافہ کردیا جائے۔ عذابِ قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہئے، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔
قبر کے حالات برحق ہیں
س… شریعت میں قبر سے کیا مراد ہے؟ سنا ہے کہ قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہوتی ہے یا جہنم کا ایک گڑھا۔ ایک ایک قبر میں کئی کئی مردے ہوتے ہیں، اگر ایک کے لئے باغ ہے تو اس میں دوسرے کے لئے گڑھا کس طرح ہوگی؟
سنتے ہیں کہ فرشتے مردے کو اٹھا کر قبر میں بٹھا دیتے ہیں، تو کیا قبر اتنی کشادہ اور اونچی ہوجاتی ہے؟
سنا ہے سانس نکلتے ہی فرشتے روح آسمان پر لے جاتے ہیں پھر وہ واپس کس طرح اور کیوں آتی ہے؟ قبر کے سوال و جواب کے بعد کہاں ہوتی ہے؟
ج… قبر سے مراد وہ گڑھا ہے جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے اور “قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔” یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔ ایک ایک قبر میں اگر کئی کئی مردے ہوں تو ہر ایک کے ساتھ معاملہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا، اس کی حسی مثال خواب ہے، ایک ہی بستر پر دو آدمی سو رہے ہیں، ایک تو خواب میں باغات کی سیر کرتا ہے اور دوسرا سخت گرمی میں جلتا ہے، جب خواب میں یہ مشاہدے روزمرہ ہیں تو قبر کا عذاب و ثواب تو عالمِ غیب کی چیز ہے اس میں کیوں اشکال کیا جائے؟
جی ہاں! مردے کے حق میں اتنی کشادہ ہوجاتی ہے، ویسے آپ نے کبھی قبر دیکھی ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قبر اتنی ہی بنائی جاتی ہے جس میں آدمی بیٹھ سکے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ روح میت میں لوٹائی جاتی ہے، اب روح خواہ علّییّن یا سجین میں ہو اس کا ایک خاص تعلق بدن سے قائم کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بدن کو بھی ثواب یا عذاب کا احساس ہوتا ہے، مگر یہ معاملہ عالمِ غیب کا ہے، اس لئے ہمیں میت کے احساس کا عام طور سے شعور نہیں ہوتا۔ عالمِ غیب کی جو باتیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بتائی ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تم کو بھی عذابِ قبر سنادے جو میں سنتا ہوں۔”
اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوئیں
الف:…قبر کا عذاب برحق ہے۔
ب:…یہ عذاب سنا جاسکتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم اس کو سنتے تھے، یہ حق تعالیٰ شانہ کی حکمت اور غایت رحمت ہے کہ ہم لوگوں کو عام طور سے اس عذاب کا مشاہدہ نہیں ہوتا، ورنہ ہماری زندگی اجیرن ہوجاتی اور غیب، غیب نہ رہتا، مشاہدہ میں تبدیل ہوجاتا۔
ج:…یہ عذاب اسی گڑھے میں ہوتا ہے جس میں مردے کو دفن کیا جاتا ہے اور جس کو عرفِ عام میں قبر کہتے ہیں، ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم یہ نہ فرماتے کہ: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو ․․․․․․” ظاہر ہے کہ اگر عذاب اس گڑھے کے علاوہ کسی اور “برزخی قبر” میں ہوا کرتا تو تدفین کو ترک کرنے کے کوئی معنی نہیں تھے۔
جی ہاں! مردے کے حق میں اتنی کشادہ ہوجاتی ہے، ویسے آپ نے کبھی قبر دیکھی ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قبر اتنی ہی بنائی جاتی ہے جس میں آدمی بیٹھ سکے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ روح میت میں لوٹائی جاتی ہے، اب روح خواہ علّییّن یا سجین میں ہو اس کا ایک خاص تعلق بدن سے قائم کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بدن کو بھی ثواب یا عذاب کا احساس ہوتا ہے، مگر یہ معاملہ عالمِ غیب کا ہے، اس لئے ہمیں میت کے احساس کا عام طور سے شعور نہیں ہوتا۔ عالمِ غیب کی جو باتیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بتائی ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تم کو بھی عذابِ قبر سنادے جو میں سنتا ہوں۔”
اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوئیں
الف:…قبر کا عذاب برحق ہے۔
ب:…یہ عذاب سنا جاسکتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم اس کو سنتے تھے، یہ حق تعالیٰ شانہ کی حکمت اور غایت رحمت ہے کہ ہم لوگوں کو عام طور سے اس عذاب کا مشاہدہ نہیں ہوتا، ورنہ ہماری زندگی اجیرن ہوجاتی اور غیب، غیب نہ رہتا، مشاہدہ میں تبدیل ہوجاتا۔
ج:…یہ عذاب اسی گڑھے میں ہوتا ہے جس میں مردے کو دفن کیا جاتا ہے اور جس کو عرفِ عام میں قبر کہتے ہیں، ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم یہ نہ فرماتے کہ: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو ․․․․․․” ظاہر ہے کہ اگر عذاب اس گڑھے کے علاوہ کسی اور “برزخی قبر” میں ہوا کرتا تو تدفین کو ترک کرنے کے کوئی معنی نہیں تھے۔
قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے
س… جنگ اخبار میں آپ نے ایک سوال کے جواب میں قبر کے عذاب و ثواب کو قرآن و حدیث سے قطعی ثابت ہونے کو فرمایا ہے، اور یہ کہ اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ میں اس گتھی کو سمجھنے کے لئے برس ہا برس سے کوشش کر رہا ہوں اور کئی علماء کو خط لکھے مگر تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ قرآن حکیم میں کئی جگہ کچھ اس طرح آیا ہے کہ ہم نے زندگی دی ہے، پھر تمہیں موت دیں گے اور پھر قیامت کے روز اٹھائیں گے، یا سورہٴ بقرہ میں دو موت اور دو زندگی کا ذکر ہے یعنی تم مردہ تھے ہم نے زندگی عطا کی پھر تمہیں موت دیں گے اور قیامت کے دن پھر اٹھائیں گے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ایک تو دنیا کی زندگی ہے، دوسری آخرت کی۔ جب یہ صرف دو زندگیاں ہیں تو قبر کی زندگی کون سی ہے؟ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ حساب کے دن ہی فیصلہ ہوگا اس سے پیشتر کیا فیصلہ؟
ج… اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے اور یہ مضمون متواتر احادیث طیبہ میں وارد ہے، ظاہر ہے کہ برزخ کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہم سے بہتر جانتے تھے۔ اس لئے اس عقیدہ پر ایمان لانا ضروری ہے اور محض شبہات کی بنا پر اس کا انکار صحیح نہیں، رہا آپ کایہ شبہ کہ قرآن کریم میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر آتا ہے، یہ استدلال عذابِ قبر کی نفی نہیں کرتا کیونکہ قبر کی زندگی محسوس و مشاہد نہیں، اسی لئے اس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے، اور قرآن کریم کی جن آیات میں دو زندگیوں کا ذکر ہے اس سے محسوس و مشاہد زندگیاں مراد ہیں۔
اور آپ کا یہ کہنا تو صحیح ہے کہ: “حساب کے دن ہی فیصلہ ہوگا” مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دنیا میں یا برزخ میں نیک و بد اعمال کا کوئی ثمرہ ہی مرتب نہ ہو، قرآن و حدیث کے بے شمار نصوص شاہد ہیں کہ برزخ تو برزخ، دنیا میں بھی نیک و بد اعمال پر جزا و سزا مرتب ہوتی ہے، اور برزخی زندگی کا تعلق دنیا سے زیادہ آخرت سے ہے، اس لئے اس میں جزا و سزا کے ثمرات کا مرتب ہونا بالکل قرین قیاس ہے۔
عذابِ قبر پر چند اشکالات اور ان کے جوابات
س… “عذابِ قبر” کے عنوان سے آپ نے ایک سوال کا جواب دیا ہے، اس میں کئی طرح کے اشکالات ہیں
آپ نے ان صاحب کے سوال کا جواب قرآن یا صحیح حدیث کی روشنی میں نہیں دیا۔
سورہٴ یونس میں اللہ نے فرعون کے متعلق فرمایا ہے کہ اب تو ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد کے آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت بنے۔ اور یہ بات سب ہی کو معلوم ہے کہ فرعون کی ممی آج تک موجود ہے مگر اس فرعون کے متعلق سورة الموٴمن میں اللہ نے فرمایا ہے: “دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ (آل فرعون) پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔” ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرعون اور آل فرعون کو عذاب کہاں دیا جارہا ہے؟ پھر ہم اس دنیا میں بھی دیکھتے ہیں کہ ہندو، چینی، اور غالباً روسی بھی اپنے مردے جلا دیتے ہیں، اور بہت سے لوگ جو جل کر مرجائیں، فضائی حادثے کا شکار ہوجائیں یا جنہیں سمندر کی مچھلیاں کھاجائیں تو انہیں تو قبر ملتی ہی نہیں، انہیں عذاب کہاں دیا جاتا ہے؟
قرآن، مردوں کے متعلق یہ بتاتا ہے
“مردے میں جان کی رمق تک نہیں ہے، انہیں اپنے متعلق یہ تک نہیں معلوم کہ وہ کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔” (النحل)۔
اور فرمایا
“(اے نبی) آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔” (فاطر)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن میں جان کی رمق تک نہیں اور جو سن تک نہیں سکتے، ان کو عذاب کیسے دیا جارہا ہے؟
ج… جناب نے میرے جواب کو یا تو پڑھا نہیں یا پھر سمجھا نہیں، ورنہ آپ نے جتنے شبہات پیش کئے ہیں ان میں ایک شبہ بھی آپ کو پیش نہ آتا، میں نے اپنے جواب میں لکھا تھا
اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے اور یہ مضمون متواتر احادیثِ طیبہ میں وارد ہے۔
میں “متواتر احادیث” کا حوالہ دے رہا ہوں لیکن آنجناب فرماتے ہیں کہ میں نے یہ جواب قرآن یا صحیح حدیث کی روشنی میں نہیں دیا۔ فرمائیے! کہ “متواتر احادیث” کو “صحیح حدیث” نہیں کہتے؟ اور اس کے بعد آپ نے جو شبہات پیش کئے ہیں میں نے ان کے جواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا
ظاہر ہے کہ برزخ کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہم سے بہتر جانتے تھے، اس لئے اس عقیدہ پر ایمان لانا ضروری ہے، اور محض شبہات کی بنا پر اس کا انکار درست نہیں۔
اگر آپ میرے اس فقرے پر غور کرتے تو آپ کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ ہوتا کہ جس عقیدے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بے شمار احادیث میں بیان فرمایا ہو اور پوری امت کے اکابر جس عقیدے پر متفق چلے آئے ہوں وہ قرآن کریم کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟ اسی سے آپ یہ بھی سمجھ سکتے تھے کہ عذابِ قبر کی نفی پر آپ نے جن آیات کا حوالہ دیا، آپ نے ان کا مطلب نہیں سمجھا اور غلط فہمی کی بنا پر آپ کو شبہ پیش آیا۔
عذابِ قبر کی نفی وہی شخص کرسکتا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے متواتر ارشادات اس کے بارے میں موجود ہیں، اور اگر اس بات کو جان لینے کے بعد کوئی شخص اس کا قائل نہیں تو اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے، صحابہ کرام سے اور چودہ صدیوں کے اکابر امت سے بڑھ کر قرآن فہمی کا مدعی ہو؟ جو آیات آپ نے عذابِ قبر کی نفی پر پیش کی ہیں اگر ان سے واقعی عذابِ قبر کی نفی ثابت ہوتی تو یہ تمام اکابر عذابِ قبر کے کیسے قائل ہوسکتے تھے؟
چونکہ آپ کو اس اجمالی جواب سے تشفی نہیں ہوئی، اس لئے مناسب ہے کہ آپ کے شبہات کا تفصیلی جواب بھی عرض کیا جائے، آپ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ فرعون اور آلِ فرعون کو صبح و شام (علی الدوام) آگ پر پیش کیا جاتا ہے، یہی عذابِ قبر ہے جس کو قرآن کریم میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رہا یہ شبہ کہ فرعون کی لاش تو محفوظ ہے، اس کو عذاب ہوتا ہوا ہمیں نظر نہیں آتا، پھر فرعون اور آلِ فرعون کو عذاب کہاں ہو رہا ہے؟
اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص آپ کے پہلو میں لیٹے ہوئے کوئی مہیب خواب دیکھ رہا ہے، آگ میں جل رہا ہے، پانی میں ڈوب رہا ہے، سانپ اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے، درندے اس پر حملہ آور ہو رہے ہیں، اسے پکڑ کر پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے، طرح طرح کی سزائیں اسے دی جارہی ہیں، وہ ایک زور کی چیخ مار کر خواب سے بیدار ہوجاتا ہے، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہے، جسم پسینے میں شرابور ہو رہا ہے، آپ اس سے پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ وہ اپنا خواب بیان کرتا ہے، آپ اس سے کہتے ہیں کہ: تم بڑے جھوٹے ہو! میں تمہارے پاس بیٹھا ہوا تھا، مجھے تو نہ تمہاری آگ کے شعلے نظر آئے، نہ پانی کی لہریں دکھائی دیں، نہ میں نے تمہارے سانپ کی پھنکار سنی، نہ تمہارے درندوں کی دھاڑیں میرے کان میں پڑیں، نہ میں نے تمہارے طوق و سلاسل کو دیکھا․․․ فرمائیے! کیا آپ کی اس منطق سے وہ اپنے خواب کو جھٹلادے گا؟ نہیں! بلکہ وہ کہے گا کہ تم بیدار تھے، میں خواب کی جس دنیا میں تھا اس میں میرے ساتھ نہیں تھے۔ آپ دونوں کے درمیان صرف بیداری اور خواب کا فاصلہ تھا، اس لئے خواب دیکھنے والے پر خواب میں جو حالات گزرے، آپ پاس بیٹھے ہوئے ان حالات سے بے خبر رہے۔ اس طرح خوب سمجھ لیجئے کہ زندوں اور مردوں کے درمیان دنیا اور برزخ کا فاصلہ حائل ہے، اگر مردوں پر گزرنے والے حالات کا زندہ لوگوں کو احساس و شعور نہ ہو تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ مردوں کو کوئی عذاب و ثواب نہیں ہو رہا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اور ان کا جہان الگ الگ ہے، اس لئے ہمیں ان کے حالات کا شعور نہیں، گو ان کے بدن ہمارے سامنے پڑے ہوں۔ آپ جب عالم برزخ میں پہنچیں گے وہاں آپ کو مشاہدہ ہوگا کہ فرعون کے اسی بدن کو عذاب ہو رہا ہے جو ہمارے سامنے پڑا ہے، لیکن یہ عذاب ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہے، جس طرح بیدار آدمی سونے والے کے حالات سے واقف نہیں لیکن خواب بیان کرنے والے کے اعتماد پر اس کے خواب کو تسلیم کرتا ہے، اسی طرح اگرچہ ہم قبر اور برزخ کے حالات سے واقف نہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے ان پر ایمان لائے ہیں، کسی چیز کا محض اس بنا پر انکار کردینا کہ وہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے، عقلمندی نہیں حماقت ہے!
قرآن کریم میں ہے کہ ملک الموت روح قبض کرتا ہے، لوگ ہمارے سامنے مرتے ہیں، ہم نے کبھی ملک الموت کو روح قبض کرتے نہیں دیکھا، مگر چونکہ یہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے اس لئے صاحبِ وحی صلی اللہ علیہ وآله وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے مشاہدہ کے بغیر اسے مانتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور گھنٹوں آپ سے گفتگو کرتے لیکن صحابہ کرام کو نہ ان کا سراپا نظر آتا تھا، نہ ان کی بات سنائی دیتی تھی۔ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر نزول جبرائیل علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے۔ پس جب ہم اللہ تعالیٰ کے وجود کو، اس کے فرشتوں کو، انبیاء گزشتہ کو، ان کی کتابوں کو، آخرت کو، حشر و نشر کو، حساب و کتاب کو، جنت و دوزخ کو، الغرض بے شمار غیبی حقائق کو جو ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہیں، بے دیکھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اعتماد پر مان سکتے ہیں اور مانتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ برزخ اور قبر کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے کیوں نہ مانیں، یہاں اپنے مشاہدہ کا حوالہ کیوں دیں․․․؟
قبر کے حالات کا تعلق عالمِ برزخ سے ہے، جو عالمِ غیب کی چیز ہے، اہل ایمان جس طرح دوسرے غیبی حقائق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے بھروسے ایمان لاتے ہیں اسی طرح قبر اور برزخ کے ان حالات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
“الذین یوٴمنون بالغیب اہل ایمان کا پہلا وصف ہے، اور غیب سے مراد وہ حقائق ہیں جو ہماری عقل و مشاہدہ سے ما ورا ہیں، پس ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ ان غیبی حقائق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اعتماد پر مانا جائے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم (خوف و دہشت کی بنا پر) مردوں کو دفن نہ کرسکوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تمہیں قبر کا وہ عذاب سنادے جو میں سنتا ہوں۔” (مشکوٰة )
آپ کا دوسرا شبہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جلا دئیے جاتے ہیں، بعض درندوں اور مچھلیوں کا لقمہ بن جاتے ہیں، انہیں قبر میں دفن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی، انہیں عذاب کہاں دیا جاتا ہے؟
یہ شبہ بھی نہایت سطحی ہے، مرنے والے کے اجزا خواہ کہیں متفرق ہوجائیں وہ علمِ الٰہی سے تو غائب نہیں ہوجاتے۔ صحیح بخاری میں اس شخص کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد مجھے جلا کر آدھی راکھ ہوا میں اڑا دینا اور آدھی دریا میں بہا دینا، کیونکہ میں بہت گناہ گار ہوں، اگر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ آگیا تو مجھے سخت سزا ملے گی۔ مرنے کے بعد بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا، اللہ تعالیٰ نے بر و بحر کے اجزا کو جمع فرما کر اسے زندہ فرمایا اور اس سے سوال کیا کہ: تو نے یہ وصیت کیوں کی تھی؟
اگر اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت مسلّم ہے کہ وہ ہوا میں اڑائے ہوئے اور دریا میں بہائے ہوئے اجزا کو جمع کرسکتے ہیں تو یقین رکھئے کہ وہ ایسے شخص کو برزخ میں ثواب و عذاب دینے پر بھی قادر ہیں۔ ہاں! اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے پے در پے متواتر ارشادات پر بھی ایمان نہ رکھتا ہو، صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے تمام اکابر امت کے اجماعی عقیدے کو بھی لغو سمجھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے علمِ محیط اور قدرتِ کاملہ میں بھی شک و شبہ ہو، اسے اختیار ہے کہ قبر اور برزخ کے عذاب و ثواب کا شوق سے انکار کرے، جب وہ خود اس منزل سے گزرے گا تب یہ غیبی حقائق اس کے سامنے کھل جائیں گے مگر اس وقت کا ماننا بیکار ہوگا․
اس میں کیا شبہ ہے کہ مردے اس جہان والوں کے حق میں واقعی مردہ ہیں، لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ان میں برزخ کے عذاب و ثواب کا بھی شعور نہیں؟ جب ہم اسی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جاگنے والوں کو سونے والوں کے حالات کا شعور نہیں اور سونے والا بیداری کے حالات سے لاشعوری کے عالم میں چلا جاتا ہے، لیکن خواب کے حالات سے وہ بے شعور نہیں، تو اسی طرح کیوں نہ سمجھا جائے کہ مرنے والوں کو برزخی احوال کا پورا شعور ہے، اگرچہ ہمیں ان کے شعور کا شعور نہیں “ولٰکن لا تشعرون” میں اسی حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے۔
آپ کا چوتھا شبہ یہ تھا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں، بالکل بجا اور صحیح ہے۔ مگر اس آیتِ کریمہ میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ قبر والوں کو سنانا ہماری قدرت سے خارج ہے، یہ تو نہیں کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بھی خارج ہے، نہ یہ کہ مرنے والوں میں کسی چیز کے سننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، قبر کے مردے دنیا والوں کی بات سنتے ہیں یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے آج تک چلا آیا ہے، لیکن اس آیتِ کریمہ سے یہ سمجھنا کہ مردوں کو برزخ اور قبر کے حالات کا بھی شعور نہیں اہل حق میں اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ “الفقہ الاکبر” میں فرماتے ہیں:
“اور قبر میں منکر نکیر کا سوال کرنا حق ہے اور بندہ کی طرف روح کا لوٹایا جانا حق ہے اور قبر کا بھینچنا حق ہے اور اس کا عذاب تمام کافروں کے لئے اور بعض مسلمانوں کے لئے حق ہے ضرور ہوگا۔”
(شرح فقہ اکبر )
اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے اور یہ مضمون متواتر احادیثِ طیبہ میں وارد ہے۔
میں “متواتر احادیث” کا حوالہ دے رہا ہوں لیکن آنجناب فرماتے ہیں کہ میں نے یہ جواب قرآن یا صحیح حدیث کی روشنی میں نہیں دیا۔ فرمائیے! کہ “متواتر احادیث” کو “صحیح حدیث” نہیں کہتے؟ اور اس کے بعد آپ نے جو شبہات پیش کئے ہیں میں نے ان کے جواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا
ظاہر ہے کہ برزخ کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہم سے بہتر جانتے تھے، اس لئے اس عقیدہ پر ایمان لانا ضروری ہے، اور محض شبہات کی بنا پر اس کا انکار درست نہیں۔
اگر آپ میرے اس فقرے پر غور کرتے تو آپ کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ ہوتا کہ جس عقیدے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بے شمار احادیث میں بیان فرمایا ہو اور پوری امت کے اکابر جس عقیدے پر متفق چلے آئے ہوں وہ قرآن کریم کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟ اسی سے آپ یہ بھی سمجھ سکتے تھے کہ عذابِ قبر کی نفی پر آپ نے جن آیات کا حوالہ دیا، آپ نے ان کا مطلب نہیں سمجھا اور غلط فہمی کی بنا پر آپ کو شبہ پیش آیا۔
عذابِ قبر کی نفی وہی شخص کرسکتا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے متواتر ارشادات اس کے بارے میں موجود ہیں، اور اگر اس بات کو جان لینے کے بعد کوئی شخص اس کا قائل نہیں تو اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے، صحابہ کرام سے اور چودہ صدیوں کے اکابر امت سے بڑھ کر قرآن فہمی کا مدعی ہو؟ جو آیات آپ نے عذابِ قبر کی نفی پر پیش کی ہیں اگر ان سے واقعی عذابِ قبر کی نفی ثابت ہوتی تو یہ تمام اکابر عذابِ قبر کے کیسے قائل ہوسکتے تھے؟
چونکہ آپ کو اس اجمالی جواب سے تشفی نہیں ہوئی، اس لئے مناسب ہے کہ آپ کے شبہات کا تفصیلی جواب بھی عرض کیا جائے، آپ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ فرعون اور آلِ فرعون کو صبح و شام (علی الدوام) آگ پر پیش کیا جاتا ہے، یہی عذابِ قبر ہے جس کو قرآن کریم میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رہا یہ شبہ کہ فرعون کی لاش تو محفوظ ہے، اس کو عذاب ہوتا ہوا ہمیں نظر نہیں آتا، پھر فرعون اور آلِ فرعون کو عذاب کہاں ہو رہا ہے؟
اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص آپ کے پہلو میں لیٹے ہوئے کوئی مہیب خواب دیکھ رہا ہے، آگ میں جل رہا ہے، پانی میں ڈوب رہا ہے، سانپ اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے، درندے اس پر حملہ آور ہو رہے ہیں، اسے پکڑ کر پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے، طرح طرح کی سزائیں اسے دی جارہی ہیں، وہ ایک زور کی چیخ مار کر خواب سے بیدار ہوجاتا ہے، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہے، جسم پسینے میں شرابور ہو رہا ہے، آپ اس سے پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ وہ اپنا خواب بیان کرتا ہے، آپ اس سے کہتے ہیں کہ: تم بڑے جھوٹے ہو! میں تمہارے پاس بیٹھا ہوا تھا، مجھے تو نہ تمہاری آگ کے شعلے نظر آئے، نہ پانی کی لہریں دکھائی دیں، نہ میں نے تمہارے سانپ کی پھنکار سنی، نہ تمہارے درندوں کی دھاڑیں میرے کان میں پڑیں، نہ میں نے تمہارے طوق و سلاسل کو دیکھا․․․ فرمائیے! کیا آپ کی اس منطق سے وہ اپنے خواب کو جھٹلادے گا؟ نہیں! بلکہ وہ کہے گا کہ تم بیدار تھے، میں خواب کی جس دنیا میں تھا اس میں میرے ساتھ نہیں تھے۔ آپ دونوں کے درمیان صرف بیداری اور خواب کا فاصلہ تھا، اس لئے خواب دیکھنے والے پر خواب میں جو حالات گزرے، آپ پاس بیٹھے ہوئے ان حالات سے بے خبر رہے۔ اس طرح خوب سمجھ لیجئے کہ زندوں اور مردوں کے درمیان دنیا اور برزخ کا فاصلہ حائل ہے، اگر مردوں پر گزرنے والے حالات کا زندہ لوگوں کو احساس و شعور نہ ہو تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ مردوں کو کوئی عذاب و ثواب نہیں ہو رہا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اور ان کا جہان الگ الگ ہے، اس لئے ہمیں ان کے حالات کا شعور نہیں، گو ان کے بدن ہمارے سامنے پڑے ہوں۔ آپ جب عالم برزخ میں پہنچیں گے وہاں آپ کو مشاہدہ ہوگا کہ فرعون کے اسی بدن کو عذاب ہو رہا ہے جو ہمارے سامنے پڑا ہے، لیکن یہ عذاب ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہے، جس طرح بیدار آدمی سونے والے کے حالات سے واقف نہیں لیکن خواب بیان کرنے والے کے اعتماد پر اس کے خواب کو تسلیم کرتا ہے، اسی طرح اگرچہ ہم قبر اور برزخ کے حالات سے واقف نہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے ان پر ایمان لائے ہیں، کسی چیز کا محض اس بنا پر انکار کردینا کہ وہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے، عقلمندی نہیں حماقت ہے!
قرآن کریم میں ہے کہ ملک الموت روح قبض کرتا ہے، لوگ ہمارے سامنے مرتے ہیں، ہم نے کبھی ملک الموت کو روح قبض کرتے نہیں دیکھا، مگر چونکہ یہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے اس لئے صاحبِ وحی صلی اللہ علیہ وآله وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے مشاہدہ کے بغیر اسے مانتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور گھنٹوں آپ سے گفتگو کرتے لیکن صحابہ کرام کو نہ ان کا سراپا نظر آتا تھا، نہ ان کی بات سنائی دیتی تھی۔ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر نزول جبرائیل علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے۔ پس جب ہم اللہ تعالیٰ کے وجود کو، اس کے فرشتوں کو، انبیاء گزشتہ کو، ان کی کتابوں کو، آخرت کو، حشر و نشر کو، حساب و کتاب کو، جنت و دوزخ کو، الغرض بے شمار غیبی حقائق کو جو ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہیں، بے دیکھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اعتماد پر مان سکتے ہیں اور مانتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ برزخ اور قبر کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے کیوں نہ مانیں، یہاں اپنے مشاہدہ کا حوالہ کیوں دیں․․․؟
قبر کے حالات کا تعلق عالمِ برزخ سے ہے، جو عالمِ غیب کی چیز ہے، اہل ایمان جس طرح دوسرے غیبی حقائق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے بھروسے ایمان لاتے ہیں اسی طرح قبر اور برزخ کے ان حالات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
“الذین یوٴمنون بالغیب اہل ایمان کا پہلا وصف ہے، اور غیب سے مراد وہ حقائق ہیں جو ہماری عقل و مشاہدہ سے ما ورا ہیں، پس ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ ان غیبی حقائق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اعتماد پر مانا جائے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم (خوف و دہشت کی بنا پر) مردوں کو دفن نہ کرسکوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تمہیں قبر کا وہ عذاب سنادے جو میں سنتا ہوں۔” (مشکوٰة )
آپ کا دوسرا شبہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جلا دئیے جاتے ہیں، بعض درندوں اور مچھلیوں کا لقمہ بن جاتے ہیں، انہیں قبر میں دفن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی، انہیں عذاب کہاں دیا جاتا ہے؟
یہ شبہ بھی نہایت سطحی ہے، مرنے والے کے اجزا خواہ کہیں متفرق ہوجائیں وہ علمِ الٰہی سے تو غائب نہیں ہوجاتے۔ صحیح بخاری میں اس شخص کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد مجھے جلا کر آدھی راکھ ہوا میں اڑا دینا اور آدھی دریا میں بہا دینا، کیونکہ میں بہت گناہ گار ہوں، اگر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ آگیا تو مجھے سخت سزا ملے گی۔ مرنے کے بعد بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا، اللہ تعالیٰ نے بر و بحر کے اجزا کو جمع فرما کر اسے زندہ فرمایا اور اس سے سوال کیا کہ: تو نے یہ وصیت کیوں کی تھی؟
اگر اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت مسلّم ہے کہ وہ ہوا میں اڑائے ہوئے اور دریا میں بہائے ہوئے اجزا کو جمع کرسکتے ہیں تو یقین رکھئے کہ وہ ایسے شخص کو برزخ میں ثواب و عذاب دینے پر بھی قادر ہیں۔ ہاں! اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے پے در پے متواتر ارشادات پر بھی ایمان نہ رکھتا ہو، صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے تمام اکابر امت کے اجماعی عقیدے کو بھی لغو سمجھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے علمِ محیط اور قدرتِ کاملہ میں بھی شک و شبہ ہو، اسے اختیار ہے کہ قبر اور برزخ کے عذاب و ثواب کا شوق سے انکار کرے، جب وہ خود اس منزل سے گزرے گا تب یہ غیبی حقائق اس کے سامنے کھل جائیں گے مگر اس وقت کا ماننا بیکار ہوگا․
اس میں کیا شبہ ہے کہ مردے اس جہان والوں کے حق میں واقعی مردہ ہیں، لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ان میں برزخ کے عذاب و ثواب کا بھی شعور نہیں؟ جب ہم اسی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جاگنے والوں کو سونے والوں کے حالات کا شعور نہیں اور سونے والا بیداری کے حالات سے لاشعوری کے عالم میں چلا جاتا ہے، لیکن خواب کے حالات سے وہ بے شعور نہیں، تو اسی طرح کیوں نہ سمجھا جائے کہ مرنے والوں کو برزخی احوال کا پورا شعور ہے، اگرچہ ہمیں ان کے شعور کا شعور نہیں “ولٰکن لا تشعرون” میں اسی حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے۔
آپ کا چوتھا شبہ یہ تھا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں، بالکل بجا اور صحیح ہے۔ مگر اس آیتِ کریمہ میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ قبر والوں کو سنانا ہماری قدرت سے خارج ہے، یہ تو نہیں کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بھی خارج ہے، نہ یہ کہ مرنے والوں میں کسی چیز کے سننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، قبر کے مردے دنیا والوں کی بات سنتے ہیں یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے آج تک چلا آیا ہے، لیکن اس آیتِ کریمہ سے یہ سمجھنا کہ مردوں کو برزخ اور قبر کے حالات کا بھی شعور نہیں اہل حق میں اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ “الفقہ الاکبر” میں فرماتے ہیں:
“اور قبر میں منکر نکیر کا سوال کرنا حق ہے اور بندہ کی طرف روح کا لوٹایا جانا حق ہے اور قبر کا بھینچنا حق ہے اور اس کا عذاب تمام کافروں کے لئے اور بعض مسلمانوں کے لئے حق ہے ضرور ہوگا۔”
(شرح فقہ اکبر )
حشر کے حساب سے پہلے عذابِ قبر کیوں؟
س… حشر کے روز انسان کو اس کے حساب کتاب کے بعد جزا یا سزا ملے گی، پھر یہ حساب کتاب سے پہلے عذابِ قبر کیوں؟ ابھی تو اس کا مقدمہ ہی پیش نہیں ہوا اور فیصلے سے پہلے سزا کا عمل کیوں شروع ہوجاتا ہے؟ مجرم کو قید تو کیا جا سکتا ہے، مگر فیصلے سے پہلے اسے سزا نہیں دی جاتی، پھر یہ عذابِ قبر کس مد میں جائے گا؟ برائے کرم تفصیل سے جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔
ج… پوری جزا و سزا تو آخرت ہی میں ملے گی۔ جبکہ ہر شخص کا فیصلہ اس کے اعمال کے مطابق چکایا جائے گا، لیکن بعض اعمال کی کچھ جزا و سزا دنیا میں بھی ملتی ہے، جیسا کہ بہت سی آیات و احادیث میں یہ مضمون آیا ہے، اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے، اسی طرح بعض اعمال پر قبر میں بھی جزا و سزا ہوتی ہے، اور یہ مضمون بھی احادیثِ متواترہ میں موجود ہے۔ اس سے آپ کا یہ شبہ جاتا رہا کہ ابھی مقدمہ ہی پیش نہیں ہوا تو سزا کیسی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پوری سزا تو مقدمہ پیش ہونے اور فیصلہ چکائے جانے کے بعد ہی ہوگی، برزخ میں جو سزا ہوگی اس کی مثال ایسی ہے جیسے مجرم کو حوالات میں رکھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے برزخ کی سزا کفارہٴ سیئات بن جائے، جیسا کہ دنیوی پریشانیاں اور مصیبتیں اہل ایمان کے لئے کفارہٴ سیئات ہیں۔ بہرحال قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سے ہر موٴمن کو پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہر نماز کے بعد عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ متفق علیہ ۔ مشکوٰة
عذابِ قبر کا احساس زندہ لوگوں کو کیوں نہیں ہوتا؟
س… ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ گناہگار بندے کو قبر کا عذاب ہوگا، پرانے زمانے میں مصری لاشوں کو محفوظ کرلیا کرتے تھے، اور آج کل اس سائنسی دور میں بھی لاشیں کئی ماہ تک سردخانوں میں پڑی رہتی ہیں، چونکہ قبر میں نہیں ہوتیں تو پھر اسے عذابِ قبر کیسے ہوگا؟
ج… آپ کے سوال کا منشا یہ ہے کہ آپ نے عذابِ قبر کو اس گڑھے کے ساتھ مخصوص سمجھ لیا ہے، جس میں مردے کو دفن کیا جاتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں، بلکہ عذاب قبر نام ہے اس عذاب کا جو مرنے کے بعد قیامت سے پہلے ہوتا ہے، خواہ میت کو دفن کردیا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے یا جلا دیا جائے یا لاش کو محفوظ کرلیا جائے اور یہ عذاب چونکہ دوسرے عالم کی چیز ہے اس لئے اس عالم میں اس کے آثار کا محسوس کیا جانا ضروری نہیں، اس کی مثال خواب کی سی ہے، خواب میں بعض اوقات آدمی پر سخت تکلیف دہ حالت گزرتی ہے لیکن پاس والوں کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
پیر کے دن موت اور عذابِ قبر
س… میں نے پڑھا ہے کہ جو شخص (مسلمان) جمعہ کے دن یا رات میں مرے گا عذابِ قبر سے بچالیا جائے گا۔ آپ سے پیر والے دن اور رات کے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ اس قسم کی کوئی فضیلت ہے؟ حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
ج… پیر کے دن کے بارے میں تو معلوم نہیں، جمعہ کے دن اور شبِ جمعہ میں مرنے والوں کے لئے عذابِ قبر سے محفوظ رہنے کا مضمون ایک روایت میں آیا ہے
کیا روح اور جان ایک ہی چیز ہے؟
س… کیا انسان میں روح اور جان ایک ہی چیز ہے یا روح علیحدہ اور جان علیحدہ چیز ہے؟ کیا جانوروں کے ساتھ بھی یہی چیز ہے؟ جب انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو کیا جان اور روح دوبارہ ڈالی جائے گی؟
ج… انسان اور حیوان کے درمیان جو چیز امتیاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حیوان کے اندر تو “روحِ حیوانی” ہوتی ہے جس کو “جان” کہتے ہیں، اور انسان میں اس “روحِ حیوانی” کے علاوہ “روحِ انسانی” بھی ہوتی ہے، جس کو “نفس ناطقہ” یا “روحِ مجرد” بھی کہا جاتا ہے، اور “روحِ حیوانی” اس نفس ناطقہ کے لئے مرکب کی حیثیت رکھتی ہے، موت کے وقت روح حیوانی تحلیل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے روح انسانی اور نفس ناطقہ کا انسانی بدن سے تدبیر و تصرف کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ برزخ میں بدن سے روح کا تعلق تدبیر و تصرف کا نہیں رہتا، بس اتنا تعلق فی الجملہ باقی رہتا ہے جس سے میت کو برزخی ثواب و عذاب کا ادراک ہوسکے۔ قیامت کے دن جب مردوں کو زندہ کیا جائے گا تو روح اور بدن کے درمیان پھر وہی تعلق قائم ہوجائے گا۔
قبر میں جسم اور روح دونوں کو عذاب ہوسکتا ہے
س… قبر کا عذاب صرف جسم کو ہوتا ہے یا روح کو بھی ساتھ ہوتا ہے؟
ج… قبر میں عذاب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے، روح کو تو بلا واسطہ اور بدن کو بواسطہ روح کے۔
موت کے بعد مردہ کے تاثرات
س… موت کے بعد غسل، جنازے اور دفن ہونے تک انسانی روح پر کیا بیتتی ہے؟ اس کے کیا احساسات ہوتے ہیں؟ کیا وہ رشتہ داروں کو دیکھتا اور ان کی آہ و بکا کو سنتا ہے؟ جسم کو چھونے سے اسے تکلیف ہوتی ہے یا نہیں؟
ج… موت کے بعد انسان ایک دوسرے جہان میں پہنچ جاتا ہے، جس کو “برزخ” کہتے ہیں۔ وہاں کے پورے حالات کا اس جہان میں سمجھنا ممکن نہیں، اس لئے نہ تو تمام کیفیات بتائی گئی ہیں، نہ ان کے معلوم کرنے کا انسان مکلف ہے، البتہ جتنا کچھ ہم سمجھ سکتے تھے عبرت کے لئے اس کو بیان کردیا گیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میت پہچانتی ہے کہ کون اسے غسل دیتا ہے، کون اسے اٹھاتا ہے، کون اسے کفن پہناتا ہے اور کون اسے قبر میں اتارتا ہے۔
(مسند احمد، معجم اوسط طبرانی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو اگر نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو، اور نیک نہ ہو تو کہتا ہے کہ ہائے بدقسمتی! تم مجھے کہاں لئے جارہے ہو؟
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب میت کا جنازہ لے کر تین قدم چلتے ہیں تو وہ کہتا ہے:
اے بھائیو! اے میری نعش اٹھانے والو! دیکھو! دنیا تمہیں دھوکا نہ دے، جس طرح اس نے مجھے دھوکا دیا، اور وہ تمہیں کھلونا نہ بنائے جس طرح اس نے مجھے کھلونا بنائے رکھا۔ میں جو کچھ پیچھے چھوڑے جارہا ہوں وہ تو وارثوں کے کام آئے گا مگر بدلہ دینے والا مالک قیامت کے دن اس کے بارے میں مجھ سے جرح کرے گا اور اس کا حساب و کتاب مجھ سے لے گا۔ ہائے افسوس! کہ تم مجھے رخصت کر رہے ہو اور تنہا چھوڑ کر آجاوٴگے۔”
(ابن ابی الدنیا فی القبور)
ایک اور حدیث میں ہے (جو بہ سند ضعیف ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے) کہ میت اپنے غسل دینے والوں کو پہچانتی ہے اور اپنے اٹھانے والوں کو قسمیں دیتی ہے، اگر اسے روح و ریحان اور جنتِ نعیم کی خوشخبری ملی ہو تو کہتا ہے: مجھے جلدی لے چلو، اور اگر اسے جہنم کی بدخبری ملی ہو تو کہتا ہے: خدا کے لئے مجھے نہ لے جاوٴ۔
(ابوالحسن بن براء، کتاب الروضہ)
یہ تمام روایات حافظ سیوطی کی “شرح الصدور” سے لی گئی ہیں۔
قبر میں جسم سے روح کا تعلق
س… انسان جب مرجاتا ہے تو اس کی روح اپنے مقام پر چلی جاتی ہے لیکن مردے سے جب قبر میں سوال و جواب ہوتا ہے تو کیا پھر روح کو مردہ جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے مردے کو قوت گویائی عطا کردیتا ہے؟ قبر میں عذاب صرف جسم کو ہوتا ہے یا روح کو بھی برابر کا عذاب ہوتا ہے؟
ج… حدیث پاک میں روح کے لوٹانے کا ذکر آتا ہے، جس سے مراد ہے جسم سے روح کا تعلق قائم کردیا جانا۔ روح خواہ علّییّن میں ہو یا سجین میں، اس کو بدن سے ایک خاص نوعیت کا تعلق ہوتا ہے، جس سے بدن کو بھی ثواب و عذاب اور رنج و راحت کا ادراک ہوتا ہے، عذاب و ثواب تو روح و بدن دونوں کو ہوتا ہے، مگر دنیا میں روح کو بواسطہ بدن راحت و الم کا ادراک ہوتا ہے اور برزخ یعنی قبر میں بدن کو بواسطہ روح کے احساس ہوتا ہے، اور قیامت میں دونوں کو بلاواسطہ ہوگا۔
نوٹ:”علّییّن” کا مادہ علو ہے، اور اس کا معنی بلندی ہے، یعنی علّییّن آسمانوں پر ایک بہت ہی عالی شان مقام ہے، جہاں نیک لوگوں کی ارواح پہنچائی جاتی ہیں وہاں ملاء اعلیٰ کی جماعت ان مقربین کی ارواح کا استقبال کرتی ہے۔
سجّین” کا مادہ سجن ہے اور سجن عربی زبان میں قید خانے کو کہتے ہیں، اس میں تنگی، ضیق اور پستی کا معنی پایا جاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ سجین ساتوں زمینوں کے نیچے ہے۔ غرض بدکاروں کے اعمال و ارواح مرنے کے بعد اسی قید خانے میں رکھی جاتی ہیں، جبکہ نیک لوگوں کے اعمال اور ارواح ساتوں آسمانوں سے اوپر موجود علّییّن میں نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھی جاتی ہیں۔
دفنانے کے بعد روح اپنا وقت کہاں گزارتی ہے؟
س… دفنانے کے بعد روح اپنا وقت آسمان پر گزارتی ہے یا قبر میں یا دونوں جگہ؟
ج… اس بارے میں روایات بھی مختلف ہیں اور علماء کے اقوال بھی مختلف ہیں۔ مگر تمام نصوص کو جمع کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ نیک ارواح کا اصل مستقر علّییّن ہے (مگر اس کے درجات بھی مختلف ہیں)، بد ارواح کا اصل ٹھکانا سجین ہے اور ہر روح کا ایک خاص تعلق اس کے جسم کے ساتھ کردیا جاتا ہے، خواہ جسم قبر میں مدفون ہو یا دریا میں غرق ہو، یا کسی درندے کے پیٹ میں۔ الغرض جسم کے اجزاء جہاں جہاں ہوں گے روح کا ایک خاص تعلق ان کے ساتھ قائم رہے گا اور اسی خاص تعلق کا نام برزخی زندگی ہے، جس طرح نورِ آفتاب سے زمین کا ذرہ چمکتا ہے، اسی طرح روح کے تعلق سے جسم کا ہر ذرہ “زندگی” سے منور ہوجاتا ہے، اگرچہ برزخی زندگی کی حقیقت کا اس دنیا میں معلوم کرنا ممکن نہیں۔
کیا روح کو دنیا میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے؟
س… روح کو دنیا میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے یا نہیں؟ کیا وہ جن جگہوں کو پہچانتی ہے، مثلاً گھر، وہاں جاسکتی ہے؟
ج… کفار و فجار کی روحیں تو “سجین” کی جیل میں مقید ہوتی ہیں، ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور نیک ارواح کے بارے میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا۔ اس لئے اس سلسلہ میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے، اصل بات یہ ہے کہ روح اپنے تصرفات کے لئے جسم کی محتاج ہے، جس طرح جسم روح کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا، اسی طرح روح بھی جسم کے بغیر تصرفات نہیں کرسکتی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ موت کے بعد اس ناسوتی جسم کے تصرفات ختم کردئیے جاتے ہیں، اس لئے مرنے کے بعد روح اگر کوئی تصرف کرسکتی ہے تو مثالی جسم سے کرسکتی ہے، چنانچہ احادیث میں انبیاء کرام، صدیقین، شہداء اور بعض صالحین کے مثالی جسم دئیے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جن ارواح کو مرنے کے بعد مثالی جسم عطا کیا جاتا ہے وہ اگر باذن اللہ کہیں آتی جاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً: لیلة المعراج میں انبیاء کرام علیہم السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے لئے بیت المقدس میں جمع ہونا، شہداء کا جنت میں کھانا پینا اور سیر کرنا، اس کے علاوہ صالحین کے بہت سے واقعات اس قسم کے موجود ہیں لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ اس کے لئے کوئی ضابطہ متعین کرنا مشکل ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب احد سے واپس ہوئے تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی قبر پر ٹھہرے اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہو۔ (پھر صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا) پس ان کی زیارت کرو، اور ان کو سلام کہو، پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! نہیں سلام کہے گا ان کو کوئی شخص مگر یہ ضرور جواب دیں گے اس کو قیامت تک۔
(حاکم، وصححہ بیہقی، طبرانی
مسند احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد نقل کیا ہے کہ: “میں اپنے گھر میں (یعنی حجرہٴ شریفہ روضہٴ مطہرہ میں) داخل ہوتی تو پردہ کے کپڑے اتار دیتی تھی، میں کہا کرتی تھی کہ یہ تو میرے شوہر (صلی اللہ علیہ وسلم) اور میرے والد ماجد ہیں، لیکن جب سے حضرت عمر دفن ہوئے اللہ کی قسم! میں کپڑے لپیٹے بغیر کبھی داخل نہیں ہوئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حیا کی بنا پر۔”
(مشکوٰة باب زیارة القبور ص:۱۵۴)
کیا روحوں کا دنیا میں آنا ثابت ہے؟
س… کیا روحین دنیا میں آتی ہیں یا عالم برزخ میں ہی قیام کرتی ہیں؟ اکثر ایسی شہادتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحیں اپنے اعزہ کے پاس آتی ہیں، شب برأت میں بھی روحوں کی آمد کے بارے میں سنا ہے۔ آپ اس مسئلے کی ضرور وضاحت کیجئے مرنے کے بعد سوم، دسواں اور چہلم کی شرعی حیثیت کی وضاحت بھی بذریعہ اخبار کردیجئے تاکہ عوام الناس کا بھلا ہو۔
ج… دنیا میں روحوں کے آنے کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں اور نہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث ہی وارد ہے۔ سوئم، دسواں اور چہلم خودساختہ رسمیں ہیں، ان کی مکمل تفصیل آپ کو میری کتاب “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” میں ملے گی۔
کیا روحیں جمعرات کو آتی ہیں؟
س… سنا ہے کہ ہر جمعرات کو ہر گھر کے دروازے پر روحیں آتی ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا جمعرات کی شام کو ان کے لئے دعا کی جائے؟
ج… جمعرات کو روحوں کا آنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، نہ اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے، باقی دعا و استغفار اور ایصالِ ثواب ہر وقت ہوسکتا ہے، اس میں جمعرات کی شام کی تخصیص بے معنی ہے۔
کیا مرنے کے بعد روح چالیس دن تک گھر آتی ہے؟
س… کیا چالیس دن تک روح مرنے کے بعد گھر آتی ہے؟
ج… روحوں کا گھر آنا غلط ہے۔
حادثاتی موت مرنے والے کی روح کا ٹھکانا
س… ایک صاحب کا دعویٰ ہے کہ جو ہنگامی موت یا حادثاتی موت مرجاتے ہیں یا کسی کے مارڈالنے سے، سو ایسے لوگوں کی روحیں برزخ میں نہیں جاتیں وہ کہیں خلاء میں گھومتی رہتی ہیں اور متعلقہ افراد کو بسااوقات دھمکیاں دینے آجاتی ہیں۔ مگر مجھے یہ سب باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، میرا خیال ہے کہ روح پرواز کے بعد علّییّن یا سجین میں چلی جاتی ہے اور ہر ایک کے لئے برزخ ہے اور قیامت تک وہ وہیں رہتی ہے، براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں میری تشفی فرمائیے۔
ج… ان صاحب کا دعویٰ غلط ہے اور دورِ جاہلیت کی سی توہم پرستی پر مبنی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں آپ کا نظریہ صحیح ہے، مرنے کے بعد نیک ارواح کا مستقر علّییّن ہے اور کفار و فجار کی ارواح سجین کے قیدخانہ میں بند ہوتی ہیں۔
روح پرواز کرنے کے بعد قبر میں سوال کا جواب
کس طرح دیتی ہے؟
س… موت واقع ہوتے ہی روح پرواز کرجاتی ہے، جسم دفن ہونے کے بعد یہ روح دوبارہ واپس آکر منکر و نکیر کے سوالوں کے جواب کیسے دیتی ہے؟
ج… قبر میں روح کا ایک خاص تعلق جس کی کیفیت کا ادراک ہم نہیں کرسکتے، جسم سے قائم کردیا جاتا ہے جس سے مردہ میں حس و شعور پیدا ہوجاتا ہے۔
مرنے کے بعد روح دوسرے قالب میں نہیں جاتی
س… کیا انسان دنیا میں جب آتا ہے تو دو وجود لے کر آتا ہے، ایک فنا اور دوسرا بقا، فنا والا وجود تو بعد مرگ دفن کردینے پر مٹی کا بنا ہوا تھا، مٹی میں مل گیا۔ بقا ہمیشہ قائم رہتا ہے؟ مہربانی فرماکر اس سوال کا حل قرآن و حدیث کی رو سے بتائیں کیونکہ میرا دوست الجھ گیا ہے، یعنی دوسرے جنم کے چکر میں۔
ج… اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد روح باقی رہتی ہے اور دوبارہ اس کو کسی اور قالب میں دنیا میں پیدا نہیں کیا جاتا، اواگون والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک ہی روح لوٹ لوٹ کر مختلف قالبوں میں آتی رہتی ہے، کبھی انسانی قالب میں، کبھی کتے، گدھے اور سانپ وغیرہ کی شکل میں۔ یہ نظریہ عقلاً و نقلاً غلط ہے۔
کیا قیامت میں روح کو اٹھایا جائے گا؟
س… سنا ہے کہ مرنے کے بعد قبر کے اندر انسان جاتے ہیں یہی اعضاء گل سڑکر کیڑوں مکوڑوں کی نذر ہوجاتے ہیں، اگر یہی اعضاء کسی ضرورت مند کو دے دئیے جائیں تو وہ شخص زندگی بھر اس عطیہ دینے والے کو دعائیں دیتا رہے گا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان جس حالت میں مرا ہوگا اسی حالت میں اٹھایا جائے گا، یعنی اگر اس کے اعضاء نکال دئیے گئے ہوں گے تو وہ بغیر اعضاء کے اٹھایا جائے گا، مثلاً اندھا وغیرہ، جبکہ اسلامی کتابوں سے ظاہر ہے کہ قیامت کے روز انسان کے جسموں کو نہیں بلکہ اس کی روح کو اٹھایا جائے گا۔
ج… اعضاء کا گل سڑجانا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ میت کے اعضاء بھی کاٹ لینا جائز ہے۔ معلوم نہیں آپ نے کون سی اسلامی کتابوں میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ قیامت کے روز انسان کے جسم کو نہیں بلکہ صرف اس کی روح کو اٹھایا جائے گا؟ میں نے جن اسلامی کتابوں کو پڑھا ہے ان میں تو حشر جسمانی لکھا ہے۔
برزخی زندگی کیسی ہوگی؟
س… روزنامہ جنگ کراچی کے صفحہ “اقرأ” میں آپ کا مفصل مضمون روح کے بارے میں پڑھا جو کہ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا، اس مضمون کو پڑھنے کے بعد چند سوالات ذہن میں آئے ہیں، جو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
آپ نے لکھا ہے کہ: “کفار و فجار کی روحیں تو “سجین” کی جیل میں مقید ہوتی ہیں، ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور نیک ارواح کے بارے میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا۔”
اور آپ نے لکھا ہے: “اگر باذن اللہ (نیک ارواح) کہیں آتی جاتی ہیں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔”
کیا ان دو باتوں کا ثبوت کہیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے؟
حالانکہ قرآن میں سورہٴ موٴمنون میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:… “(سب مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) حائل ہے، دوسری زندگی تک” یعنی مرنے کے بعد دنیا میں واپس نہیں آسکتے، خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔
جیسا کہ سورہ یٰسین میں آیا ہے:
ترجمہ:…”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس سے پہلے بہت سے لوگوں کو ہلاک کردیا تھا، اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔”
اس بات کا ایک اور ثبوت ترمذی اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ کیا بات ہے میں تم کو غم زدہ پا رہا ہوں۔ حضرت جابر رضي الله تعالى عنه کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں عرض کیا کہ: ميرے والد “غزوه اُحد” میں شہید ہوگئے اور ان پر قرض باقی ہے اور کنبہ بڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: جابر! کیا تم کو میں یہ بات بتاوٴں کہ اللہ نے کسی سے بھی پردے کے بغیر بات نہیں کی مگر تمہارے والد سے آمنے سامنے ہوکر کہا کہ: عبداللہ! مانگو، تم کو دوں گا۔ تمہارے باپ نے کہا: مالک مجھے پھر دنیا میں واپس لوٹادے تاکہ میں دوسری بار تیری راہ میں قتل کیا جاوٴں! اس پر مالک عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ: میری طرف سے یہ بات کہی جا چکی ہے کہ لوگ دنیا سے چلے آنے کے بعد پھر اس کی طرف واپس نہ جاسکیں گے۔ (ترمذی و بیہقی)۔
عموماً لوگ کہتے ہیں کہ یہاں مراد جسمانی جسم کے ساتھ ہے، کیونکہ جسم بغیر روح کے بے معنی ہے اور روح بغیر جسم کے۔ اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ صرف روح دنیا میں آتی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روح سنتی بھی ہے اور دیکھتی بھی ہے تو یہ بات سورہٴ موٴمنون کی آیات سے ٹکراتی ہے، سورہٴ احقاف میں اللہ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ دنیا سے گزرجانے والے لوگوں کو دنیاوی حالات کی کچھ خبر نہیں رہتی، ارشاد ربانی ہے
ترجمہ:…”اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو آواز دے حالانکہ وہ قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے وہ تو ان کی پکار سے غافل ہیں۔”
(الاحقاف آیت:۵، ۶)۔
دراصل یہی وہ گمراہ کن عقیدہ ہے جو شرک کی بنیاد بنتا ہے، لوگ نیک بزرگوں کو زندہ اور حاضر و ناظر سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں اور اللہ کے ساتھ ظلمِ عظیم کرتے ہیں۔
ازراہ کرم ان باتوں کو کسی قریبی اشاعت میں جگہ دیں تاکہ لوگوں کے دل میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور ہوسکیں، اللہ ہمارا اور آپ کا حامی و ناصر ہوگا۔
ج… یہ تو اسلام کا قطعی عقیدہ ہے کہ موت فنائے محض کا نام نہیں کہ مرنے کے بعد آدمی معدومِ محض ہوجائے، بلکہ ایک جہان سے دوسرے جہان میں اور زندگی کے ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہونے کا نام موت ہے۔ پہلے دور کو “دنیوی زندگی” کہتے ہیں اور دوسرے دور کا نام قرآن کریم نے “برزخ” رکھا ہے۔
برزخ اس آڑ اور پردے کو کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان واقع ہو، چونکہ یہ برزخی زندگی ایک عبوری دور ہے اس لئے اس کا نام “برزخ” تجویز کیا گیا۔
آپ نے سوال میں جو احادیث نقل کی ہیں ان کا مدعا واضح طور پر یہ ہے کہ مرنے والے عام طور پر “برزخ” سے دوبارہ دنیوی زندگی کی طرف واپس نہیں آتے (البتہ قرآن کریم میں زندہ کئے جانے کے جو واقعات مذکور ہیں، ان کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا)۔
اور میں نے جو لکھا ہے کہ: “اگر باذن اللہ نیک ارواح کہیں آتی جاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جا سکتی۔” اس سے دنیوی زندگی اور اس کے لوازمات کی طرف پلٹ آنا مراد نہیں کہ ان آیات و احادیث کے منافی ہو، بلکہ برزخی زندگی ہی کے دائرے میں آمد و رفت مراد ہے، اور وہ بھی باذن اللہ ․․․! رہا آپ کا یہ ارشاد کہ:
“دراصل یہی وہ گمراہ کن عقیدہ ہے جو شرک کی بنیاد بنتا ہے، لوگ نیک بزرگوں کو زندہ اور حاضر و ناظر سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں۔” اگر اس سے آپ کی مراد “برزخی زندگی” ہے تو جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا یہ اسلامی عقیدہ ہے، اس کو گمراہ کن عقیدہ کہہ کر شرک کی بنیاد قرار دینا صحیح نہیں۔ جبکہ حضرت جابر رضي الله تعالى عنه کی وہ حدیث جو آپ نے سوال میں نقل کی ہے وہ خود اس “برزخی زندگی” کا منہ بولتا ثبوت ہے اور پھر شہداء کو تو صراحتاً زندہ کہا گیا ہے اور ان کو مردہ کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ شہداء کی یہ زندگی بھی برزخی ہی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ دنیوی زندگی کا دور تو ان کا بھی پورا ہوچکا ہے۔ بہرحال “برزخی زندگی” کے عقیدے کو گمراہ کن نہیں کہا جاسکتا۔ رہا لوگوں کا بزرگوں کو حاضر و ناظر سمجھ کر انہیں دستگیری کے لئے پکارنا! تو اس کا “برزخی زندگی” سے کوئی جوڑ نہیں، نہ یہ زندگی اس شرک کی بنیاد ہے۔
اولاً:…مشرکین تو پتھروں، مورتیوں، درختوں، دریاوٴں، چاند، سورج اور ستاروں کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتے اور ان کو حاجت روائی اور دستگیری کے لئے پکارتے ہیں۔ کیا اس شرک کی بنیاد ان چیزوں کی “برزخی زندگی” ہے؟ دراصل جہلاء شرک کے لئے کوئی بنیاد تلاش نہیں کیا کرتے، شیطان ان کے کان میں جو افسوں پھونک دیتا ہے وہ ہر دلیل اور منطق سے آنکھیں بند کرکے اس کے القاء کی پیروی شروع کردیتے ہیں۔ جب پوجنے والے بے جان پتھروں تک کو پوجنے سے باز نہیں آتے تو اگر کچھ لوگوں نے بزرگوں کے بارے میں مشرکانہ غلو اختیار کرلیا تو اسلامی عقیدے سے اس کا کیا تعلق ہے؟
ثانیاً:…جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، مشرکین عرب فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک، نفع و نقصان کا مالک اور خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے اور تقرب الی اللہ کے لئے ان کی پرستش کو وسیلہ بناتے تھے، کیا ان کے اس جاہلانہ عقیدے کی وجہ سے فرشتوں کی حیات کا انکار کردیا جائے؟ حالانکہ ان کی حیات برزخی نہیں دنیوی ہے اور زمینی نہیں آسمانی ہے۔ اب اگر کچھ لوگوں نے انبیاء واولیاء کی ذوات مقدسہ کے بارے میں بھی وہی ٹھوکر کھائی جو مشرکین عرب نے فرشتوں کے بارے میں کھائی تھی تو اس میں اسلام کے “حیاتِ برزخی” کے عقیدے کا کیا قصور ہے؟ اور اس کا انکار کیوں کیا جائے․․․؟
ثالثاً:…جن بزرگوں کو لوگ بقول آپ کے زندہ سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں، وہ اسی دنیا میں لوگوں کے سامنے زندگی گزار کر تشریف لے گئے ہیں۔ یہ حضرات اپنی پوری زندگی میں توحید و سنت کے داعی اور شرک و بدعت سے مجتنب رہے، اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجائیں کرتے رہے، انہیں بھوک میں کھانے کی ضرورت ہوتی تھی، بیماری میں دوا دارو اور علاج معالجہ کرتے تھے، انسانی ضروریات کے محتاج تھے، ان کی یہ ساری حالتیں لوگوں نے سر کی آنکھوں سے دیکھیں اس کے باوجود لوگوں نے ان کے تشریف لے جانے کے بعد ان کو نفع و نقصان کا مالک و مختار سمجھ لیا اور انہیں دستگیری و حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کردیا، جب ان کی تعلیم، ان کے عمل اور ان کی انسانی احتیاج کے علی الرغم لوگوں کے عقائد میں غلو آیا تو کیا “حیاتِ برزخی” (جو بالکل غیرمحسوس چیز ہے) کے انکار سے اس غلو کی اصلاح ہوجائے گی؟
الغرض نہ حیاتِ برزخی کے اسلامی عقیدے کو شرک کی بنیاد کہنا صحیح ہے، نہ اس کے انکار سے لوگوں کے غلو کی اصلاح ہوسکتی ہے، ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و سنت اور خود ان بزرگوں کی تعلیمات سے پورے طور پر آگاہ کیا جائے۔
“حیاتِ برزخی” کے ضمن میں آپ نے “سماعِ موتیٰ” کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے، چونکہ یہ مسئلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے زمانے سے اختلافی چلا آرہا ہے، اس لئے میں بحث نہیں کرنا چاہتا، البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ سماعِ موتیٰ کا مسئلہ بھی اس شرک کی بنیاد نہیں جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، اس کی دلیل میں ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا ہوں، آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سے فقہائے حنفیہ سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں اس کے باوجود ان کا فتویٰ یہ ہے:
“وفی البزازیة: قال علمائنا من قال ارواح المشائخ حاضرة تعلم، یکفر۔”
(البحر الرائق)
ترجمہ:…”فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے کہ ہمارے علماء نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر اور وہ سب کچھ جانتی ہیں، تو ایسا شخص کافر ہوگا۔”
اس عبارت سے آپ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ سماعِ موتیٰ کے مسئلہ سے نہ بزرگوں کی ارواح کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے، نہ عالم الغیب ہونا، ورنہ فقہائے حنفیہ جو سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں، یہ فتویٰ نہ دیتے۔
آپ نے سورہٴ احقاف کی جو آیت نقل فرمائی ہے، اس کو حضرات مفسرین نے مشرکین عرب سے متعلق قرار دیا ہے، جو بتوں کو پوجتے تھے، گویا “لا یستجیبون” اور “غافلون” کی یہ دونوں صفات جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہیں، وہ بتوں کی صفات ہیں جو جمادِ محض تھے، لیکن اگر اس آیت کو تمام معبودانِ باطلہ کے لئے عام بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے ان کی حاجت روائی پر قادر نہ ہونا اور غائب ہونا تو لازم آتا ہے مگر اس سے حیات کی نفی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ عموم کی حالت میں یہ آیت فرشتوں کو بھی شامل ہوگی، اور آپ جانتے ہیں کہ ان سے قدرت اور حاضر و ناظر ہونے کی نفی تو صحیح ہے مگر حیات کی نفی صحیح نہیں بلکہ خلافِ واقعہ ہے۔
آخر میں گزارش ہے کہ “برزخ” جو دنیا و آخرت کے درمیان واقع ہے، ایک مستقل جہان ہے اور ہماری عقل و ادراک کے دائرے سے ماورا ہے، اس عالم کے حالات کو نہ دنیوی زندگی پر قیاس کیا جاسکتا ہے، نہ اس میں اندازے اور تخمینے لگائے جاسکتے ہیں، یہ جہان چونکہ ہمارے شعور و احساس اور وجدان کی حدود سے خارج ہے اس لئے عقلِ صحیح کا فیصلہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے جو حالات ارشاد فرمائے (جو صحیح اور مقبول احادیث سے ثابت ہوں) انہیں ردّ کرنے کی کوشش نہ کی جائے، نہ قیاس و تخمین سے کام لیا جائے۔
س… روزنامہ جنگ کراچی کے صفحہ “اقرأ” میں آپ کا مفصل مضمون روح کے بارے میں پڑھا جو کہ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا، اس مضمون کو پڑھنے کے بعد چند سوالات ذہن میں آئے ہیں، جو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
آپ نے لکھا ہے کہ: “کفار و فجار کی روحیں تو “سجین” کی جیل میں مقید ہوتی ہیں، ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور نیک ارواح کے بارے میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا۔”
اور آپ نے لکھا ہے: “اگر باذن اللہ (نیک ارواح) کہیں آتی جاتی ہیں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔”
کیا ان دو باتوں کا ثبوت کہیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے؟
حالانکہ قرآن میں سورہٴ موٴمنون میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:… “(سب مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) حائل ہے، دوسری زندگی تک” یعنی مرنے کے بعد دنیا میں واپس نہیں آسکتے، خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔
جیسا کہ سورہ یٰسین میں آیا ہے:
ترجمہ:…”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس سے پہلے بہت سے لوگوں کو ہلاک کردیا تھا، اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔”
اس بات کا ایک اور ثبوت ترمذی اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ کیا بات ہے میں تم کو غم زدہ پا رہا ہوں۔ حضرت جابر رضي الله تعالى عنه کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں عرض کیا کہ: ميرے والد “غزوه اُحد” میں شہید ہوگئے اور ان پر قرض باقی ہے اور کنبہ بڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: جابر! کیا تم کو میں یہ بات بتاوٴں کہ اللہ نے کسی سے بھی پردے کے بغیر بات نہیں کی مگر تمہارے والد سے آمنے سامنے ہوکر کہا کہ: عبداللہ! مانگو، تم کو دوں گا۔ تمہارے باپ نے کہا: مالک مجھے پھر دنیا میں واپس لوٹادے تاکہ میں دوسری بار تیری راہ میں قتل کیا جاوٴں! اس پر مالک عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ: میری طرف سے یہ بات کہی جا چکی ہے کہ لوگ دنیا سے چلے آنے کے بعد پھر اس کی طرف واپس نہ جاسکیں گے۔ (ترمذی و بیہقی)۔
عموماً لوگ کہتے ہیں کہ یہاں مراد جسمانی جسم کے ساتھ ہے، کیونکہ جسم بغیر روح کے بے معنی ہے اور روح بغیر جسم کے۔ اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ صرف روح دنیا میں آتی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روح سنتی بھی ہے اور دیکھتی بھی ہے تو یہ بات سورہٴ موٴمنون کی آیات سے ٹکراتی ہے، سورہٴ احقاف میں اللہ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ دنیا سے گزرجانے والے لوگوں کو دنیاوی حالات کی کچھ خبر نہیں رہتی، ارشاد ربانی ہے
ترجمہ:…”اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو آواز دے حالانکہ وہ قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے وہ تو ان کی پکار سے غافل ہیں۔”
(الاحقاف آیت:۵، ۶)۔
دراصل یہی وہ گمراہ کن عقیدہ ہے جو شرک کی بنیاد بنتا ہے، لوگ نیک بزرگوں کو زندہ اور حاضر و ناظر سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں اور اللہ کے ساتھ ظلمِ عظیم کرتے ہیں۔
ازراہ کرم ان باتوں کو کسی قریبی اشاعت میں جگہ دیں تاکہ لوگوں کے دل میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور ہوسکیں، اللہ ہمارا اور آپ کا حامی و ناصر ہوگا۔
ج… یہ تو اسلام کا قطعی عقیدہ ہے کہ موت فنائے محض کا نام نہیں کہ مرنے کے بعد آدمی معدومِ محض ہوجائے، بلکہ ایک جہان سے دوسرے جہان میں اور زندگی کے ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہونے کا نام موت ہے۔ پہلے دور کو “دنیوی زندگی” کہتے ہیں اور دوسرے دور کا نام قرآن کریم نے “برزخ” رکھا ہے۔
برزخ اس آڑ اور پردے کو کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان واقع ہو، چونکہ یہ برزخی زندگی ایک عبوری دور ہے اس لئے اس کا نام “برزخ” تجویز کیا گیا۔
آپ نے سوال میں جو احادیث نقل کی ہیں ان کا مدعا واضح طور پر یہ ہے کہ مرنے والے عام طور پر “برزخ” سے دوبارہ دنیوی زندگی کی طرف واپس نہیں آتے (البتہ قرآن کریم میں زندہ کئے جانے کے جو واقعات مذکور ہیں، ان کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا)۔
اور میں نے جو لکھا ہے کہ: “اگر باذن اللہ نیک ارواح کہیں آتی جاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جا سکتی۔” اس سے دنیوی زندگی اور اس کے لوازمات کی طرف پلٹ آنا مراد نہیں کہ ان آیات و احادیث کے منافی ہو، بلکہ برزخی زندگی ہی کے دائرے میں آمد و رفت مراد ہے، اور وہ بھی باذن اللہ ․․․! رہا آپ کا یہ ارشاد کہ:
“دراصل یہی وہ گمراہ کن عقیدہ ہے جو شرک کی بنیاد بنتا ہے، لوگ نیک بزرگوں کو زندہ اور حاضر و ناظر سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں۔” اگر اس سے آپ کی مراد “برزخی زندگی” ہے تو جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا یہ اسلامی عقیدہ ہے، اس کو گمراہ کن عقیدہ کہہ کر شرک کی بنیاد قرار دینا صحیح نہیں۔ جبکہ حضرت جابر رضي الله تعالى عنه کی وہ حدیث جو آپ نے سوال میں نقل کی ہے وہ خود اس “برزخی زندگی” کا منہ بولتا ثبوت ہے اور پھر شہداء کو تو صراحتاً زندہ کہا گیا ہے اور ان کو مردہ کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ شہداء کی یہ زندگی بھی برزخی ہی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ دنیوی زندگی کا دور تو ان کا بھی پورا ہوچکا ہے۔ بہرحال “برزخی زندگی” کے عقیدے کو گمراہ کن نہیں کہا جاسکتا۔ رہا لوگوں کا بزرگوں کو حاضر و ناظر سمجھ کر انہیں دستگیری کے لئے پکارنا! تو اس کا “برزخی زندگی” سے کوئی جوڑ نہیں، نہ یہ زندگی اس شرک کی بنیاد ہے۔
اولاً:…مشرکین تو پتھروں، مورتیوں، درختوں، دریاوٴں، چاند، سورج اور ستاروں کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتے اور ان کو حاجت روائی اور دستگیری کے لئے پکارتے ہیں۔ کیا اس شرک کی بنیاد ان چیزوں کی “برزخی زندگی” ہے؟ دراصل جہلاء شرک کے لئے کوئی بنیاد تلاش نہیں کیا کرتے، شیطان ان کے کان میں جو افسوں پھونک دیتا ہے وہ ہر دلیل اور منطق سے آنکھیں بند کرکے اس کے القاء کی پیروی شروع کردیتے ہیں۔ جب پوجنے والے بے جان پتھروں تک کو پوجنے سے باز نہیں آتے تو اگر کچھ لوگوں نے بزرگوں کے بارے میں مشرکانہ غلو اختیار کرلیا تو اسلامی عقیدے سے اس کا کیا تعلق ہے؟
ثانیاً:…جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، مشرکین عرب فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک، نفع و نقصان کا مالک اور خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے اور تقرب الی اللہ کے لئے ان کی پرستش کو وسیلہ بناتے تھے، کیا ان کے اس جاہلانہ عقیدے کی وجہ سے فرشتوں کی حیات کا انکار کردیا جائے؟ حالانکہ ان کی حیات برزخی نہیں دنیوی ہے اور زمینی نہیں آسمانی ہے۔ اب اگر کچھ لوگوں نے انبیاء واولیاء کی ذوات مقدسہ کے بارے میں بھی وہی ٹھوکر کھائی جو مشرکین عرب نے فرشتوں کے بارے میں کھائی تھی تو اس میں اسلام کے “حیاتِ برزخی” کے عقیدے کا کیا قصور ہے؟ اور اس کا انکار کیوں کیا جائے․․․؟
ثالثاً:…جن بزرگوں کو لوگ بقول آپ کے زندہ سمجھ کر دستگیری اور حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں، وہ اسی دنیا میں لوگوں کے سامنے زندگی گزار کر تشریف لے گئے ہیں۔ یہ حضرات اپنی پوری زندگی میں توحید و سنت کے داعی اور شرک و بدعت سے مجتنب رہے، اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجائیں کرتے رہے، انہیں بھوک میں کھانے کی ضرورت ہوتی تھی، بیماری میں دوا دارو اور علاج معالجہ کرتے تھے، انسانی ضروریات کے محتاج تھے، ان کی یہ ساری حالتیں لوگوں نے سر کی آنکھوں سے دیکھیں اس کے باوجود لوگوں نے ان کے تشریف لے جانے کے بعد ان کو نفع و نقصان کا مالک و مختار سمجھ لیا اور انہیں دستگیری و حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کردیا، جب ان کی تعلیم، ان کے عمل اور ان کی انسانی احتیاج کے علی الرغم لوگوں کے عقائد میں غلو آیا تو کیا “حیاتِ برزخی” (جو بالکل غیرمحسوس چیز ہے) کے انکار سے اس غلو کی اصلاح ہوجائے گی؟
الغرض نہ حیاتِ برزخی کے اسلامی عقیدے کو شرک کی بنیاد کہنا صحیح ہے، نہ اس کے انکار سے لوگوں کے غلو کی اصلاح ہوسکتی ہے، ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و سنت اور خود ان بزرگوں کی تعلیمات سے پورے طور پر آگاہ کیا جائے۔
“حیاتِ برزخی” کے ضمن میں آپ نے “سماعِ موتیٰ” کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے، چونکہ یہ مسئلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے زمانے سے اختلافی چلا آرہا ہے، اس لئے میں بحث نہیں کرنا چاہتا، البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ سماعِ موتیٰ کا مسئلہ بھی اس شرک کی بنیاد نہیں جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، اس کی دلیل میں ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا ہوں، آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سے فقہائے حنفیہ سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں اس کے باوجود ان کا فتویٰ یہ ہے:
“وفی البزازیة: قال علمائنا من قال ارواح المشائخ حاضرة تعلم، یکفر۔”
(البحر الرائق)
ترجمہ:…”فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے کہ ہمارے علماء نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر اور وہ سب کچھ جانتی ہیں، تو ایسا شخص کافر ہوگا۔”
اس عبارت سے آپ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ سماعِ موتیٰ کے مسئلہ سے نہ بزرگوں کی ارواح کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے، نہ عالم الغیب ہونا، ورنہ فقہائے حنفیہ جو سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں، یہ فتویٰ نہ دیتے۔
آپ نے سورہٴ احقاف کی جو آیت نقل فرمائی ہے، اس کو حضرات مفسرین نے مشرکین عرب سے متعلق قرار دیا ہے، جو بتوں کو پوجتے تھے، گویا “لا یستجیبون” اور “غافلون” کی یہ دونوں صفات جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہیں، وہ بتوں کی صفات ہیں جو جمادِ محض تھے، لیکن اگر اس آیت کو تمام معبودانِ باطلہ کے لئے عام بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے ان کی حاجت روائی پر قادر نہ ہونا اور غائب ہونا تو لازم آتا ہے مگر اس سے حیات کی نفی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ عموم کی حالت میں یہ آیت فرشتوں کو بھی شامل ہوگی، اور آپ جانتے ہیں کہ ان سے قدرت اور حاضر و ناظر ہونے کی نفی تو صحیح ہے مگر حیات کی نفی صحیح نہیں بلکہ خلافِ واقعہ ہے۔
آخر میں گزارش ہے کہ “برزخ” جو دنیا و آخرت کے درمیان واقع ہے، ایک مستقل جہان ہے اور ہماری عقل و ادراک کے دائرے سے ماورا ہے، اس عالم کے حالات کو نہ دنیوی زندگی پر قیاس کیا جاسکتا ہے، نہ اس میں اندازے اور تخمینے لگائے جاسکتے ہیں، یہ جہان چونکہ ہمارے شعور و احساس اور وجدان کی حدود سے خارج ہے اس لئے عقلِ صحیح کا فیصلہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے جو حالات ارشاد فرمائے (جو صحیح اور مقبول احادیث سے ثابت ہوں) انہیں ردّ کرنے کی کوشش نہ کی جائے، نہ قیاس و تخمین سے کام لیا جائے۔
اہل قبور کے بارے میں چند ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم میں اپنے اس مضمون میں نقل کرچکا ہوں، جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اور چند امور یہ ہیں
قبر میں میت کے بدن میں روح کا لوٹایا جانا۔
منکر نکیر کا سوال و جواب کرنا۔
قبر کا عذاب و راحت۔
بعض اہل قبور کا نماز و تلاوت میں مشغول ہونا۔
اہل قبور (جو موٴمن ہوں) کا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا۔
اہل قبور کو سلام کہنے کا حکم۔
اہل قبور کی طرف سے سلام کا جواب دیا جانا۔
اہل قبور کو دعا و استغفار اور صدقہ خیرات سے نفع پہنچانا۔
برزخی حدود کے اندر اہل ایمان کی ارواح کا باذنِ الٰہی کہیں آنا جانا جیسا کہ شبِ معراج میں انبیاء علیہم السلام کا بیت المقدس میں اجتماع ہوا۔
خلاصہ یہ کہ جو چیزیں ثابت ہیں ان سے انکار نہ کیا جائے، اور جو ثابت نہیں ان پر اصرار نہ کیا جائے، یہی صراطِ مستقیم ہے، جس کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے
والله الموفق!
قبر میں میت کے بدن میں روح کا لوٹایا جانا۔
منکر نکیر کا سوال و جواب کرنا۔
قبر کا عذاب و راحت۔
بعض اہل قبور کا نماز و تلاوت میں مشغول ہونا۔
اہل قبور (جو موٴمن ہوں) کا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا۔
اہل قبور کو سلام کہنے کا حکم۔
اہل قبور کی طرف سے سلام کا جواب دیا جانا۔
اہل قبور کو دعا و استغفار اور صدقہ خیرات سے نفع پہنچانا۔
برزخی حدود کے اندر اہل ایمان کی ارواح کا باذنِ الٰہی کہیں آنا جانا جیسا کہ شبِ معراج میں انبیاء علیہم السلام کا بیت المقدس میں اجتماع ہوا۔
خلاصہ یہ کہ جو چیزیں ثابت ہیں ان سے انکار نہ کیا جائے، اور جو ثابت نہیں ان پر اصرار نہ کیا جائے، یہی صراطِ مستقیم ہے، جس کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے
والله الموفق!