تقسيم ميراث کی تفصیل

تقسيمِ ميراث

تقسیمِ میراث کی اہمیت و فضیلت
میراث کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں اس کی تفصیلات کو کئی آیات میں بیان کیا ہے۔ دیگر کئی احکام بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے مگر اللہ رب العزت نے انکی جزئیات کو بیان نہیں کیا مثلاً زکوٰۃ ہی کو آپ لیں اللہ رب العزت نے اس کی فرضیت اور فضیلت کو تو قرآن مجید میں بیان فرمایا مگر اس کی مقدار بیان نہیں کی، اسی طرح نماز کی فرضیت کو بیان فرمایا مگر اس کی رکعتوں اور طریقہ کا ر کو بیان نہیں فرمایا لیکن میراث کی اہمیت کے پیش نظر اس کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور ورثاء کے حصص کو بھی بیان فرمایا۔ تقسیم میراث وہ اہم فریضہ ہے جس میں کوتاہی عام ہے اس اہم فریضہ کے تارک عام پائے جاتے ہیں کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اس کے ترکہ پر کوئی ایک وارث یا چند ورثاء مل کر قابض ہو جاتے ہیں۔کسی دوسرے کا حق کھانا حرام ہے اور حرام کھانے پر جہاں آخرت میں عذاب 
ہوگا وہیں دنیا میں بھی اس کے بڑے نقصانات ہیں۔
وراثت میں ہر وارث کو اس کا حق دینا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ قرآن مجيد میں بیان کردہ چیزوں سے لگائیں
شروع میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وراثت تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
رکوع کے آخر میں فرمایا کہ وراثت کے احکام اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جنہیں توڑنے کی اجازت نہیں۔
جو وراثت کو کَماحَقُّہٗ تقسیم کرکے اطاعت ِالٰہی کرے گا اور حدودِ الٰہی کی پاسداری کرے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت کے باغوں میں داخل ہوگا
جو وراثت میں دوسرے کا حق مارے گا اور حدودِ الٰہی کو توڑے گا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نافرمان ہے۔
 حدودِ الٰہی کو توڑنے والا شخص جہنم کی بھڑکتی آگ میں داخل ہوگا۔
اور جو شخص وراثت کے ان احکام کو مانتا ہی نہیں اور اس وجہ سے عمل بھی نہیں کرتا وہ تو ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔


دین سے دوری کا سبب ؟
مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے ’’ میں نے بصیرت کی بناء پر تجربہ کیا ہے کہ لوگوں کی دین سے دوری میں اسی 80 فیصد حرام مال کھانے کا عمل دخل ہے،اور دس فیصد اس سے کہ بے نمازی کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہیں اور دس فیصد اس سے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار نہیں کرتے۔
کسی دوسرے کا حق کھانا گناہ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہ ہے کہ جب تک معاف نہ کرایا جائے معاف نہیں ہوگا۔ ممکن ہے اللہ رب العزت مہربانی فرما کر حقوق اللہ کو معاف فرما دیں مگر حقوق العباد (بندوں کے حقوق ) اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک اس شخص سے معاف نہ کرا دیئے جائیں جس کے حقوق تلف کئے ہیں۔

ایک الائچی
مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرماتے تھے كه حرام مال کھانے کے بے شمار ذرائع ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے بندے ہیں جو ان ذرائع سے بچتے ہیں مگر شرعی تقسیم میراث ایک ایسا فریضہ ہے جس میں کوتاہی کے مرتکب بڑے بڑے دیندار لوگ بھی ہیں، کئی لوگ سود، چوری، جھوٹ و فریب سے بچتے ہیں اور دیندار ہونے کے دعوے دار ہیں لیکن میراث کے باب میں دوسروں کے حقوق کھا کر آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں۔ حالانکہ مرنے والے کی جیب سے اگر ایک الائچی نکلے تو کسی وارث کے لئے شرعاً جائز نہیں کہ وہ اس الائچی پر قابض ہو جائے کیونکہ اس میں تمام ورثاء کا حق ہے۔ اس الائچی کو بھی ترکہ میں رکھ کر شرعی طریق سے تقسیم کیا جائے گا۔


كلام الله كا ڈیڑھ صفحہ
مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرماتے هيں كه آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ لوگ رواج پر تو عمل کرتے ہیں مگر قرآن مجید کے ڈیڑھ صفحے پر عمل متروک ہو چکا ہے۔ رواج یہ ہے کہ عورتوں کو جہیز میں کچھ سامان دے دیتے ہیں اور میراث میں جو ان کا حق بنتا ہے خود ہضم کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی بهن / بیٹی کو جہیز میں پوری دنیا کی دولت بهي دے دے اس کے بعد اس بیٹی کا میراث میں ایک روپیہ بھی حق بنتا ہو تو وہ ایک روپیہ اس بهن / بیٹی کا حق ہے یہ اس کو دینا پڑے گا۔ اگر اس دنیا میں نہ دیا تو کل آخرت میں اپنی نیکیوں کو صورت میں دینا پڑے گا۔

حقِ وراثت معاف کروانا
کچھ لوگ عورتوں سے یہ کہلوا کر کہ ہم نے اپنا حق معاف کر دیا، بے فکر ہو جاتے ہیں ایسا کرنے سے ان کا حق معاف نہیں ہو گا اسکی صرف ایک صورت ہے وہ یہ کہ میراث کے مال کو اور جائیداد کو شرعی طریقہ سے تقسیم کر دیا جائے اور جائیداد ورثاء کے نام کرکے ان كے حوالے کر دی جائے اس کے بعد اگر کوئی وارث اپنی مرضی اور طیب خاطر سے اپنا حق ہبہ کرنا چاہے یا واپس کرنا چاہے تو جائز ہے۔


جبری ملکیت
وراثت کے ذریعہ جو ملکیت ورثاء کی طرف منتقل ہوتی ہے وہ جبری ملکیت ہے، نہ تو اس میں وراثت کا قبول کرنا شرط ہے اور نہ وارث کا اس پر راضی ہونا شرط ہے بلکہ اگر وہ اپنی زبان سے صراحتاً یوں بھی کہہ دے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا/ ليتي تب بھی شرعاً وہ اپنے حصے کا مالک بن جاتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے حصے کو قبضے میں لینے کے بعد شرعی قاعدے کے مطابق کسی دوسرے کو ہبہ کر دے یا بیچ ڈالے یا تقسیم کر دے۔
(عزیزالفتاویٰ صفحہ 78،معارف القرآن جلد2ص312۔)

تقسيمِ ِميراث ميں کوتاہی کا اندازہ
میراث کی شرعی تقسیم میں کتنی کوتاہی ہوتی ہے ؟ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ میراث کے مسائل ہر عالم اور مفتی کو یاد بھی نہیں ہوتے اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے یہ مسائل پڑھے نہیں ہوتے ، بلکہ وجہ یہ ہے کہ ان سے کوئی میراث کے مسائل پوچھنے والا ہی نہیں آتا حالانکہ ہر روز ہزاروں مسلمان فوت ہو رہے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ علماء کے پاس میراث کے مسائل پوچھنے والوں کی لائنیں لگی ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہر روز اتنی طلاقیں نہیں ہوتیں جتنے انسان فوت ہو رہے ہیں لیکن طلاق کے مسائل پوچھنے والے سب سے زیادہ ہیں۔

میراث کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضور اقدس ﷺ نے علم میراث سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل بتائے اور میراث میں کوتاہی کرنے والوں کے لئے وعیدیں سنائیں۔
ذیل میں میراث کی اہمیت اور فضیلت اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے بارے میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔

علمِِ میراث سیکھو اور سیکھاؤ
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ مرفوعاً : تعلمواالفرائض وعلموہ الناس فانی امرأمقبوض وان العلم سیقبض وتظہر الفتن حتیٰ یختلف الاثنان فی الفریضۃ فلایجدان احدا یفصل بینھما۔
(المستدرک علی الصحیحین جز4ص369)
ترجمہ…٭حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا تم علم فرائض (علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو بھی سیکھاؤ کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں اور بلاشبہ عنقریب علم اٹھایا جائے گا اور بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی حصہ میراث کے بارے میں باہم جھگڑا کریں گے اور انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جو ان کے درمیان اسکا فیصلہ کرے۔

میراث نصف علم ہے
تعلمواالفرائض وعلموھا فانہ نصف العلم وھو ینسی وھو اول شیء ینزع من امتی
(ابن ماجہ )
ترجمہ : تم فرائض (میراث)سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤکہ وہ نصف علم ہے بلاشبہ وہ بھلا دیا جائے گا اور میری امت سے یہی علم سب سے پہلے سلب کیا جائے گا۔


بے سر کے ٹوپی
ان مثل العالم الذی لا یعلم الفرائض کمثل البرنس لارأس لہ۔ 
(جمع الفوائد کتاب العلم)
ترجمہ…٭وہ عالم جو فرائض (میراث ) نہ جانتا ہو ایسا ہے جیسا کہ بے سر کے ٹوپی یعنی اس کا علم بے زینت و بے کار ہے۔

سر جس میں چہرہ ہی نہیں
عن ابی موسیٰ رضی اللہ تعالى عنہ موقوفا : من علم القراٰن ولم یعلم الفرائض فان مثلہ مثل الرأس لا وجہ لہ۔ 
(الدارمی 441/2 )
ترجمہ…٭حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے : جس نے قرآن سیکھا لیکن فرائض (میراث) کو حاصل نہ کیا تو اس کی مثال ایسے سر کی ہے جس میں چہرہ نہ ہو۔


مفيد باتیں کرنا
اذا لھو تم فالھوا بالرمی واذا تحدثتم فتحدثواباالفرائضکتب عمرإلی أبی موسیٰ الاشعری: ۔
(المستدرک علی الصحیحین جز4صفحہ 370) (سنن بیہقی ج 6 ص209)
ترجمہ…جب تم کھیلنا چاہو تو تیر اندازی کا کھیل کھیلو اور جب باتیں کرنا چاہو تو فرائض کی باتیں کرو۔

جنت سے محروم
عن انس قال قال رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم  من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم. القیامۃ۔ 
(مشکوۃ)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا جس نے کسی وارث کے حصہ میراث کو روکا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کے حصے کو روکیں گے۔


دوزخ میں داخلہ
ایک صحیح حدیث کا مضمون ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعت خداوندی میں مشغول رہتے ہیں لیکن موت کے وقت میراث میں وارثوں کو ضرر پہنچاتے ہیں (یعنی بلاوجہ شرعی کسی حیلے سے محروم کر دیتے ہیں یا حصہ کم کر دیتے ہیں) ایسے شخصوں کو اللہ تعالیٰ سیدھا دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔
(مشکوۃ)

بھوکا شخص
قال رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم:فمن یأخذ مالاً بحقہ یبارک لہ فیہ و من یأخذ مالا بغیر حقہ فمثلہ کمثل الذی یأکل ولایشبع۔ 
( الصحیح الامام المسلم727/2)
ترجمہ…حضور صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا جس نے مال حق کے ساتھ لیا تو اس میں برکت ڈالی جائے گی اور جس نے بغیر حق کے مال لیا تو اس کی مثال اس شخص سی ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔

اقوال صحابہ رضوان الله عليهم
قال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ : تعلمواالفرائض و اللحن والسنن کما تعلمواالقراٰن.
(سنن دارمی441/2 بیہقی، مصنف ابن شیبہ )
ترجمہ…حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میراث، لحن، اور سنن کواس طرح سیکھو جیسا کہ تم نے قرآن کو سیکھا۔

عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ : تعلمواالفرائض والطلاق والحج فأنہ من دینکم۔
(دارمی 441/2 )
ترجمہ…حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ علم میراث اور 
طلاق اور حج کو سیکھو یہ تمہارے دین میں سے ہے۔

قال عبداللہ بن مسعود تعلمواالفرائض فأنہ یوشک ان یفتقرالرجل الی علم کان یعلمہ أویبقی فی قوم لایعلمون۔
(طبرانی، مجمع الزوائد - المعجم الکبیر )
ترجمہ…٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ علم میراث کو سیکھو عنقریب آدمی اس علم کا محتاج ہو گا جس کو وہ جانتا تھا، یا ایسی قوم میں ہو گا جو علم نہیں رکھتے۔

قال عقبۃ بن عامر تعلمواالفرائض قبل الظانین یعنی الذین یتکلمون باالظن۔
(بخاری ، تغلیق التعلیق )
ترجمہ…٭حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ علم میراث کو سیکھو گمان کرنے والوں سے پہلے یعنی جو لوگ گمان کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔
ان احادیث میں علم میراث کو سیکھنے اور سکھانے کا حکم دیا گیا ہے اور علم میراث کو نصف علم کہا گیا ہے اور وہ عالم جو میراث نہ جانتا ہو اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ گویا ایسا ہے کہ اس کے پاس ٹوپی تو ہے مگر سر نہیں اور اسکے پاس سرتوہے مگر اس میں چہرہ نہیں۔

اسی طرح فرمایا جو کسی کا حصہ نہیں دے گا اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کا حصہ روکیں گے۔ اب علماء اور عام مسلمانوں سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس علم کو پھلائیں تاکہ لوگ اس حرام خوری کے گناہ عظیم سے بچ سکیں۔

 زندگي ميں اولاد میں مال و جائیداد تقسیم کرنا 
میراث سے متعلق احکام وفات کے بعد کے ہیں زندگی میں اگر کوئی شخص بحالت صحت اولاد میں مال و جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی کو مساوی طور پر حصہ دیا جائے اور اگر اولاد میں سے کسی کو اس کے تقویٰ یا دینداری یا حاجت مندی یا والدین کی خدمت گزاری کی وجہ سے نسبتاً زیادہ حصہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں اور اگر اولاد بے دین فاسق و فاجر ہو اور مال دینے کی صورت میں بھی اس کی اصلاح کی امید نہ ہو تو انہیں صرف اتنا مال کہ جس سے وہ زندہ رہ سکیں دینے کے بعد بقیہ مال امور خیر میں خرچ کرنا افضل ہے 
(الدرمختار)
خلاصہ یہ ہے کہ زندگی میں بحالت صحت تو اختیار ہے لیکن مرنے کے بعد کسی وارث کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔

شرعي وارث كو عاق کرنا
چونکہ مرنے کے بعد وارث کا استحقاق خود ثابت ہو جاتا ہے اس لئے اگر کسی مرنے والے نے عاق نامہ بھی تحریر کر دیا کہ میں اپنے فلاں وارث سے(بیٹا ہو یا بیٹی یا کوئی اور وارث)فلاں وجہ سے ناراض ہوں وہ میرے مال اور ترکہ سے محروم رہے گا۔ میں اس کو عاق کرتا ہوں تب بھی وہ شرعاً محروم نہیں ہو گا اور اس کا حصہ مقرر اس کو ملے گا کیونکہ میراث کی تقسیم نفع پہنچانے یا خدمت گزاری کی بنیاد پر نہیں۔ لہٰذا کسی بھی وارث کو محروم کرنا حرام ہے ایسی تحریر کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں۔ البتہ نافرمان بیٹے یا کسی دوسرے فاسق و فاجر وارث کو محروم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ شخص اپنی صحت وتندرستی کے زمانہ میں کل مال و متاع دوسرے ورثاء میں شرعی طور پر تقسیم کر کے اپنی ملکیت سے خارج کر دے تو اس وقت جب کچھ ترکہ ہی باقی نہیں رہے گا تو نہ میراث جاری ہو گی نہ کسی کو حصہ ملے گا۔
(امداد الفتاویٰ  - مولانا سید حسن صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند)


ترکہ کیا ہے؟
وہ تمام جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ جو میت کو ورثہ میں ملی ہو یا خود کمائی ہو بشمول تمام قابل وصولی قرضہ جات ترکہ کہلاتی ہے اور اسے منتخب اصول و قوانین کے مطابق میت کے رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہےجو چیز میت کی ملک میں نہ ہو بلکہ قبضہ میں ہو وہ ترکہ نہیں ہے مثلاً میت کے پاس کسی نے کوئی امانت رکھی تھی تو وہ ترکہ میں شامل نہ ہوگی بلکہ جس نے رکھوائی تھی اس کو واپس کی جائے گی
  میراث کی تقسیم میں دنیا کی مختلف قوموں میں مختلف طریقے رائج رہے ہیں ، جیسے جاہلیت ِعرب کے لوگ عورتوں اور بچوں کو میراث کے مال سے محروم رکھتے تھے، ان میں جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا، وہ کسی تامل کے بغیرساری میراث سمیٹ لیتا اورکمزوروں کا حصہ چھین لیتا جبکہ برصغیر کی قومیں اور دیگر علاقوں کےلوگ عورتوں کو حصہ بالکل نہ دیتے تھے۔ یہ سب طریقے اعتدال سے دور اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھے۔

وارث کون ؟
ہر خونی رشتہ دار اور خاوند بیوی جو میت کی وفات کے وقت زندہ ہو نیز حمل کا بچہ سب وارث کہلاتے ہیں۔


قابل تقسیم ترکہ
سب سے پہلے میت کے دفن تک ہونے والے ضروری اخراجات اس کے ترکہ سے نکالے جاسکتے ہیں مثلاً کفن، قبر کی کھدائی کی اجرت، اگر ضرورت پڑے تو قبر کے لئے جگہ خریدنا وغیرہ یہ سب امور تجہیز میں داخل ہیں یہ اخراجات ترکہ سے نکالے جا سکتے ہیں اس کے علاوہ غیر شرعی امور مثلاً امام کے لئے مصلیٰ خریدنا وغیرہ یہ ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے تجہیز کے اخراجات میں نہ تو فضول خرچی کی جائے اور نہ بخل۔ اس کے بعد باقی مال سے میت کے ذمہ واجب الاداء قرضہ جات ادا کئے جائیں گے بیوی کا مہر خاوند کے ذمہ قرض ہے اگر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تھا تو ترکہ سے پہلے اسے ادا کیا جائے گا۔
اس کے بعد باقی مال سے جائز وصیت ایک تہائی (1/3)تک ادا کی جائے گی۔ یہ تین کام کر نے کے بعد جو باقی بچ جائے وہ قابل تقسیم ترکہ ہے۔ اب شرعی ضابطہ کے مطابق جس وارث کا (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) جتنا حصہ بنتا ہو اسے دے دیا جائے اور جو وارث شرعی ضابطہ کے مطابق محروم ہوتا ہے اس کو محروم کر دیا جائے۔

رخصتی سے پہلے بھی وراثت ملے گی
اگر کسی لڑکی اور لڑکے کی آپس میں منگنی ہوئی اور نکاح بھی ہو گیا لیکن ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ لڑکا (یعنی خاوند) فوت ہو گیا تو تب بھی وہ لڑکی اس لڑکے کے مال سے بطور بیوی وراثت کی حق دار ہو گی۔


منہ بولا بیٹا یا بیٹی
کسی مرد یا عورت نے کسی لڑکے یا لڑکی کو منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنا لیا تو وہ لڑکا یا لڑکی اس مرد یا عورت کے ترکہ سے حق وراثت نہ پائے گا۔

نابالغ وارثوں کا حق وراثت
اگر میت کے وارثوں میں بعض نابالغ بچے ہوں اور وہ اپنے حصہ میں سے کچھ صدقہ، خیرات یا ہدیہ کرنے کی اجازت دیں تو ان کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں۔ تقسیم جائیداد کے بعد صرف بالغ وارثین اپنے اپنے حصہ سے خیرات وغیرہ کر سکتے ہیں اس سے پہلے نہیں۔

مسئلہ تخارج
اگر کوئی وارث دوسرے وارثوں کی رضامندی سے اس شرط پر اپنا حق وراثت چھوڑ دے کہ اس کو کوئی خاص چیز وراثت میں سے دے دی جائے تو یہ شرعاً جائز ہے۔ مثلاً ایک مکان یا ایک کار لے لی اور باقی ترکہ میں سے اپنا حصہ چھوڑ دیا۔ یا خاوند نے اپنی مرنے والی بیوی کا حق مہر نہ دیا تھا تو اس نے اس کے بدلے اپنا حصہ وراثت جو بیوی کے ترکہ سے اس کو ملتا تھا چھوڑ دیا۔

پینشن کی رقم کی تقسیم
میت کے وظیفہ یا پینشن کے بقایا جات جو اس کی موت کے بعد وصول ہوں ان کی بھی دوسرے ترکہ کی طرح تقسیم ہوگی لیکن اگر موت کے بعد پینشن جاری رہی جس کو فیملی پینشن کہتے ہیں تو سرکاری کاغذات میں جس کے نام پینشن درج ہو گی صرف وہی وصول کرنے کا حقدار ہوگا۔


میت کی فوت شدہ نماز و روز ے کا فدیہ
جس شخص کے ذمہ نماز یا روزے یا زکوٰۃ یا حج واجب ہو اور ا س پر موت کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو واجب ہے کہ وہ اپنے وارثوں کو وصیت کر جائے کہ میری طرف سے نماز، روزہ وغیرہ کا فدیہ ادا کر دیں اور زکوٰۃ و حج ادا کر دیں لیکن یہ وصیت جائیداد (ترکہ) کے ایک تہائی سے زیادہ وارثوں کی رضا مندی کے بغیر عمل میں نہیں لائی جاسکتی ایک نماز یا ایک روزہ کا فدیہ احتیاطاً دو کلو گرام گندم یا اس کی قیمت ہے جو روزے مرض الموت میں قضاء ہوئے ہوں ان کی قضا اور فدیہ واجب نہیں۔جو شخص نماز روزے حج وغیرہ کے ادا کرنے کی وصیت کر گیا ہو اگر اس نے مال بھی چھوڑا ہے تو اس کی وصیت (ترکہ کے ایک تہائی تک) کا پورا کرنا اس کے وارثوں پر واجب ہے اگر مال نہیں چھوڑا تو وارثوں کی مرضی پر موقوف ہے۔


ميراث كي شرعي تقسيم كا طريقه
ميراث كي شرعي تقسيم كا بهترين طريقه يه هے كه إس سلسلہ میں علماء دین اور مفتیان کرام سے رابطہ کیا جائے۔ أنكو بالكل صحيح صحيح صورت حال بتائى جائے اور قرآن وسنت كي روشني ميں وه جو مشوره/فتوى ديں اس پر من وعن عمل كيا جائے لیکن چونکہ دین اسلام ہر انسان کے لئے آیا ہے، اور میراث کے مسائل سے ہر ایک کو واسطہ پڑتا ہے اس لئے عوام الناس کو بھی تقسیم میراث سیکھنا چاہیے۔ خصوصاً اس زمانے میں جب کہ یہ علم مٹتا جا رہا ہے اور عوام شرعی تقسیم سے لا پرواہی کر رہے ہیں اور اس علم کو سیکھنا بالکل آسان ہو چکا ہے اور شرعی تقسیم میراث کے نت نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں، جن کو ایک عام شخص جو تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہو سیکھ سکتا ہے۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ علم سیکھیں اور سکھائیں اور اس پر عمل کریں اور نصف علم کے حصول کا ثواب حاصل کریں۔


تقسیمِِ میراث: چند غور طلب پہلو
عام مسلمانوں میں کثرت سے اور بعض خواص میں بھی مالی معاملات کے بارے میں جو بڑی کوتاہیاں اور غلطیاں ہو رہی ہیں، ان میں سے ایک کوتاہی میراث کا اللہ تعالٰیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ارشادات کے مطابق تقسیم نہ کرنا، بلکہ ایک وارث یا چند وارثوں کا اسے ہڑپ کر جانا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا ہے۔ قرآنِ مجید میں اسے اللہ تعالٰیٰ اور رسول اللہ کی نافرمانی اور کافروں کا عمل اور کردار بتایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰیٰ ہے:

وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا
 اور مال کی محبت میں پوری طرح گرفتار 
ہو اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔


دورِ جاہلیت میں میراث
عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں اور بچوں کو میراث کے مال سے محروم رکھا جاتا تھا، جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا، وہ بلا تامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا، اور ان سب لوگوں کا حصہ بھی مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ رکھتے تھے۔ میراث اور ورثے کی تقسیم کے بارے میں دنیا کی مختلف قوموں کے نظریات، خیالات اور طور طریقے کئی طرح کے رہے ہیں۔ ان طریقوں میں سے کسی میں بھی اعتدال اور انصاف نہیں تھا۔ بعض قومیں میراث میں عورتوں اور بچوں کو بالکل حصہ نہیں دیتی تھیں۔ عرب جاہلیت کی قومیں، برعظیم پاک و ہند کی قومیں اور دیگر علاقوں کے لوگ عورتوں کو حصہ بالکل نہیں دیتے، پھر بیٹوں میں بھی انصاف و برابری نہیں تھی۔ کسی بیٹے کو تھوڑا تو کسی کو زیادہ دیا جاتا تھا۔
بعض اقوام نے میراث دینی شروع کی تو پرانے جاہلیت کے طریقے کو چھوڑ کر نئی جاہلیت اپنائی اور عورتوں کو مردوں کے برابر لاکھڑا کیا۔ یہ دوسری انتہا اور زیادتی ہے جس میں بھی انصاف کے تقاضے مدنظر نہیں رکھے گئے۔ میراث کی تقسیم میں افراط و تفریط دنیا کے بہت بڑے حصے میں پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے اور مسلم اُمت بھی اس کبیرہ گناہ میں گرفتار ہے۔


اسلام اور احکامِِ میراث
اللہ تعالٰیٰ نے مسلمانوں کے لیے تقسیمِ میراث کے احکام بالکل صاف واضح، متعین اور دو اور دو چار کی طرح مقرر کردیے، اس میں کوئی الجھاؤ اور شبہہ تک نہیں چھوڑا۔ اس لیے کہ مال وہ پسندیدہ اور دل لبھانے والی چیز ہے کہ انسان اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ معاشرتی دباؤ کی بنا پر کوئی زبان نہ کھولے تو اور بات ہے، لیکن دل میں خواہش، تمنا اور اپنا حق حاصل کرنے کی تڑپ ضرور موجود رہے گی۔ میراث کی تقسیم، وارثوں کے حصے، حصوں کی حکمت، میراث سے قرض کی ادائیگی، وصیت پوری کرنے اور اس حکم پر عمل کرنے والوں کے لیے جنت کی خوش خبری اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دوزخ کے دردناک عذاب کی وعید سورۂ النساء میں بیان کی گئی ہے۔

میراث کی حکمت و احکام
تقسیمِ میراث میں حصہ پانے والوں کے حصے مقرر کرتے ہوئے کچھ باتیں کلام کے درمیان میں بیان کی گئی ہیں جن سے اس مسئلے کی پوشیدہ حکمتیں، اہمیت، فرضیت اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے خوش خبری اور اسے چھوڑ دینے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے عذاب بیان کیا گیا ہے۔
میراث کی تقسیم میں جو حصے مقرر کیے گئے ہیں، ان کی مقدار کی مکمل حکمت و مصلحت اللہ رب العزت ہی بہتر جانتا ہے، اس لیے کہ ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا: ’’تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون نفع کے لحاظ سے تمھارے قریب تر ہیں۔ یہ حصے اللہ تعالى نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور تمھاری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔
تقسیمِ میراث کی آیات میں وصیت اور ادایگیِ قرض کے الفاظ متعدد مرتبہ آئے ہیں۔ لہٰذا تقسیمِ میراث میں سب سے پہلے میت کے ذمے جو قرض ہے اسے ادا کرنا چاہیے۔ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مقروض (قرض دار) کا جنازہ تک نہیں پڑھایا۔ اس لیے نفلی خیرات و صدقات کرنے سے پہلے تدفین کے اخراجات اور اس کے بعد قرض کی ادایگی لازمی ہے۔ بیوی کا مہر بھی قرض میں شامل ہے اور شوہر کے ذمے لازم ہے۔
میت کی ملکیت میں سے ایک تہائی کی وصیت پوری کی جانی چاہیے۔ جس محسن کی میراث لی جارہی ہے، اس کا اتنا تو حق ہونا چاہیے کہ اس کا کہا مانتے ہوئے ایک تہائی میراث میں سے اس کی وصیت پوری کی جائے۔ اگر وصیت، ایک تہائی میراث سے زیادہ ہے تو زیادہ وصیت پوری کرنا لازم نہیں ہے۔ اگر سب بالغ ورثا راضی ہوں تو پورا کر دیں، ورنہ زیادہ کو چھوڑ دیں۔
جب تک میراث تقسیم نہیں ہوتی تو تمام وارثوں (بشرطیکہ بالغ ہوں) سے اجازت لیے بغیر خیرات و صدقات نہ کیے جائیں۔ اگر وارث نابالغ اور کم سن ہوں تو کسی صورت میں خیرات کرنا نہیں چاہیے اور وارث یتیم ہونے کی صورت میں گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے، لہٰذا ایسی خیرات کھلانے والے، کھانے والے گویا دوزخ کے ایندھن سے شکم پُری کر رہے ہیں۔
میراث کے احکام کے آخر میں دو آیتیں بہت ہی اہم ہیں۔ ان سے تقسیمِ میراث کی اہمیت، فرضیت اور اس پر ثواب و عذاب کا اندازہ ہوتا ہے۔ آیت 14 کے بارے میں علماء كرام تحریر کرتے ہیں: ’’یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جو اللہ تعالٰیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانونِ وراثت کو تبدیل کریں یا، ان دوسری قانونی حدوں کو توڑیں جو خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کر دی ہیں۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ اس کے قانونِ وراثت کے معاملے میں جو نافرمانیاں کی گئیں ہیں وہ اللہ کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور پر محروم کیا گیا۔ کہیں عورتوں کي میراث كے حصه كو مختلف بهانوں سے كم کیا گیا کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھرایا گیا، کہیں سرے سے تقسیمِ میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر ’مشترکہ خاندانی جایداد‘ کا طریقہ اختیار کیا گیا اور کہیں عورتوں اور مردوں کا حصہ برابر کر دیا گیا‘‘۔

قیامت کے دن سوال
-قیامت کے دن ہر مسلمان سے پانچ اہم سوال کیے جائیں گے اور ان کے جواب طلب کیے جائیں گے۔ جب بندہ ان کے جواب دے دے گا تب قدم آگے بڑھائے گا۔ ان سوالوں میں سے دو سوال، یعنی ایک سو نمبروں میں سے 40 نمبر یا 40 فی صد سوال مال کے بارے میں ہوں گے۔
حضرت ابوبرزہ اسلمی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی عدالت سے آدمی نہیں ہٹ سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہیں لے لیا جائے گا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ
عمر کن مشاغل میں گزاری؟
دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا؟
مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟
جسم کو کس کام میں گھُلایا؟
ان پانچ سوالوں میں سے دو سوال صرف مال کے بارے میں ہیں، یعنی دیگر مالی معاملات کے علاوہ میراث کے مال کے بارے میں ضرور سوال ہوگا کہ کیسے حاصل کیا؟ کیا دوسرے وارثوں کا حق مار کر اپنا حصہ لیا اور دوسروں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا يا أن كے حصه ميں كمي كي ؟
میراث کو قرآن مجید کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا وارثوں پر فرضِ عین ہے اور دوسرے رشتہ داروں اور برادری اور خاندان کے بزرگوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ میراث کو اللہ اور رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم 
کے احکام کے مطابق تقسیم کرنے کی تلقین کریں اور ترغیب دیں تو ان پر سے فرض کفایہ اُتر جائے گا، اور وارثوں پر فرضِ عین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ خوش دلی اور رضا و خوشی سے میراث کی شریعت کے مطابق تقسیم کرنے پر متفق ہوجائیں تو سب پر سے فرض اُتر جائے گا۔

میراث کا معاملہ جدید دور میں
آج مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں اور برعظیم پاک و ہند کے مختلف علاقوں کو دیکھتے ہیں تواندازہ ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی بہت کم لوگ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں اور بڑی تعداد اللہ تعالٰیٰ کی نافرمانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر ایک سروے کا اہتمام کیا جائے کہ کتنے فی صد لوگ میراث شرعی طریقے پر تقسیم کرتے ہیں تاکہ حقیقی صورت حال سامنے آ سکے اور لوگوں کو توجہ دلائی جا سکے کہ بحیثیت مجموعی ہم اللہ تعالٰیٰ کے واضح حکم سے کتنی غفلت برت رہے ہیں۔



تقسیمِ میراث کے فوائد،برکتیں،رحمتیں

 اور اجروثواب

دین ِاسلام نے مسلمانوں کو جو بھی احکامات اور اصول و قوانین دئیے سبھی دنیا و آخرت کی بے شمار بھلائیوں ، برکتوں ، رحمتوں اور فوائد کے حامل ہیں
شریعتِ مطہرہ کے مطابق تقسیمِ میراث کی برکتیں ، رحمتیں ، فوائد اور اجروثواب بہت زیادہ ہے۔
 اس سے اجتماعی و انفرادی اور ديني و دنياوي فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں اسلامی اصول و قوانین کے مطابق میراث تقسیم کرنے کے اُخروی اور دُنْیَوی فوائد و برکات ملاحظہ ہوں
 اللہ تعالٰیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ایسے بندے سے اللہ تعالٰیٰ محبت کرتا ہے۔
میراث کے شرعی حکم پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بہت بڑی کامیابی فرمایا ہے۔

 قیامت کے دن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم 
کی شفاعت نصیب ہوگی اور اس دن کے عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی۔

 ایسے شخص کا مال حلال ہونے کی وجہ سے مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ آخرت کے دن بڑا سرمایہ ہوگا۔

 جن عزیز و اقارب اور عورتوں کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے، وہ ان کے لیے دل سے دعائیں کرتے ہیں اور محروموں کو جب حق ملتا ہے تووہ ایسے شخص کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔

 تقسیمِ میراث سے دولت تقسیم ہوتی ہے جو اسلام کا ایک مقصد ہے۔ ارشاد باری تعالٰیٰ ہے
کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ
ترجمہ: ’تاکہ وہ تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گشت نہ کرتا رہے‘‘۔

 تقسیمِ میراث کے حکم پر عمل کرنے سے دوسروں کو ترغیب ہوتی ہے اور پہل کرنے والے کو اجر ملتا ہے اور اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔


میراث کے شرعی احکام پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے اور جہنم کے رُسوا کن عذاب سے بچ جاتا ہے اور یہ بہت بڑی اُخروی کامیابی ہے۔

تقسیمِ میراث کے اسلامی احکام پر عمل کرنے سے اگر دوسروں کو ترغیب ملے تو إس كا ثواب بهي
إس كو ملتا هے

شرعی قوانین کے مطابق میراث میں ملنے والا مال حلال ہوتا ہے اور حلال مال سے کی جانے والی مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں اوران کا قبول ہو جانا بہت بڑا اُخروی سرمایہ ہے۔

شرعی اُصولوں کے مطابق میراث تقسیم کرنے سے دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے ورنہ عموماً لڑائی جھگڑے ہی ہوتے ہیں۔

کمزور عزیز و اَقارب، عورتوں اور بچوں کو وراثت سے ان کا حصہ دینا ان کی خیرخواہی کرنے کی بھی ایک صورت ہے اور مسلمان کی خیر خواہی دین کا ایک بنیادی مقصد ہے، نیز اس سے ان کی دعائیں ، ہمدردی اور محبت بهي ملتي هے جو إيك بهت بڑا سرمايه هے

شریعت کے مطابق میراث تقسیم کرنے والا ظالموں اور غاصبوں کی صف میں شامل ہونے، وارثوں کی دشمنی، بغض و حسد اور لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچ جاتا ہے۔



میراث کی حق دارعورتوں كي ذمه داري
میراث کی حق دار عورتوں کو اپنے حق کے لیے مطالبہ کرنا چاہیے۔ میراث میں عورتوں، بیٹیوں، بہنوں، ماں اور بیویوں کا حق ہے، لہٰذا انھیں اپنے حق کا نہ صرف مطالبہ کرنا چاہیے، بلکہ آگے بڑھ کر تقاضا کرکے اپنا حق لینا چاہیے اور هر وه ممكن راسته إختيار كرنا چاهيے جس سے يه فرض قرآن المجيد كے كے مطابق پورا هو جائے اور قرآن مجید کے اس حکم (فرضِ عین) پر عمل کرنے کی هر ممكن کوشش کرنی چاہیے۔ عورتوں کو جاہلیت کی رسم اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنا حصہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ أنهيں كسي صورت بهي الله تعالى كي نافرماني كا مرتكب هونے والوں كا ساتهـ نهيں دينا چاهيے ورنه كهيں إيسا نه هو قيامت والے دن قران المجيد كے حكم كي خلاف ورزي كرنے والوں ميں شامل هوجائيں 

خاندان کے دوسرے 
افراد كي ذمه داري
خاندان کے دوسرے افراد كي بهي يه شرعي ذمه داري هے كه وه اپنا اثر و رسوخ إستعمال كركے
ان ( عورتوں) کا حصہ دلوانے میں اپنا کردار ادا کريں - أنهيں هر ممكن كوشش كركے الله تعالى
 كے إس حكم كو نافذ كروانے كي سعي كرني چاهيے اگر أن كي كوشش سے الله تعالى كے حكم كے مطابق ميراث كا مسئله حل هوگيا تو إس كا آجر ان كو قيامت والے دن ضرور ملے گا اور اگر ان كي كوشش كے باوجود غاصبين نے يه مسئله حل نه كيا پهر بهي وه آجر سے محروم نهيں هوں گے كيونكه انهوں نے تو اپني بساط كے مطابق پوري كوشش كي هے



اسلامی احکام کے مطابق میراث تقسیم نہ 
کرنے کے نقصانات
جس طرح اسلامی احکام کے مطابق میراث کا مال تقسیم کرنے کے کثیر اُخروی اور دُنیوی فوائد وبرکات ہیں ، اسی طرح شریعت کے مطابق میراث تقسیم نہ کر نے کے دنیا و آخرت دونوں میں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، یہاں ان میں سے كچهـ نقصانات ملاحظہ ہوں
شریعت کے مطابق میراث تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی اور ا س کی حدوں کو توڑنا ہے اور ایسے شخص کے لئے قرآنِ مجید میں جہنم کے عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے۔
وارث کے مال پر قبضہ جمانے والے سے قیامت کے انتہائی خوفناک دن میں ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا اور ہر حق دار کو اس کا حق ضرور دلایا جائے گا۔
اسلامی اصولوں کے مطابق میراث تقسیم نہ کرنا اور وارثوں کو ان کے حق سے كسي طرح محروم کرنا اسلامی طریقے سے ہٹنا اورکفار کے طریقے پر چلنا ہے جو ہرگز مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
میراث کے حق داروں کا مال کھانے والا، ظالم اور کئی صورتوں میں غاصب ہے اور ایسا شخص ظلم و غصب کی بنا پرجہنم کا مستحق ہے۔
دوسرے کی میراث پر قبضے کا مال ’’مالِ حرام ‘‘ہے، اور حرام مال سے کیا گیا صدقہ مردود ہے اور ایسے شخص کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔
دوسروں کی میراث کا مال کھانے سے کمزور لوگوں کی بددعائیں ملتی ہیں اور مظلوم کی بد دعا بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہے۔
میراث کا مال نہ دینے سے دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اورایسا شخص لوگوں کی نظر میں ذلت و رسوائی کا شکار ہوتا ہے۔
میراث تقسیم نہ کرنے اور مستحقین کو محروم رکھنے کے کئی خطرناک پہلو ہیں جن میں میراث کھانے والے مبتلا ہوکر گنہگار ہوتے ہیں اور اپني آخرت كو برباد كر ليتے هيں ۔ یہ نقصانات  درج ذیل ہیں
 میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوؤں اور غیرمسلم اقوام کا طریقہ ہے۔ میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے اپنے رب كے حكم كو توڑ كر إن أقوام كي تابعداري كرتے هيں اور حديث مباركه ميں هے جو جس قوم كي مشابهت أختيار كرے گا قيامت والے دن أنهي كے ساتهـ أٹهايا جائے گا

 میراث کا شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ تعالٰیٰ اور رسول اللہ کی نافرمانی ہے۔ یہ صریحاً فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برسہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بهي بڑا گناہ اور اللہ تعالٰیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔

 میراث کے حق داروں کا مال کھا جانا ظلم ہے اور یہ شخص ظالم ہے۔ لیکن اگر وارث اپنے قبضے اور تحویل میں لے لیں اور پھر کوئی طاقت ور وارث چھین لے تو یہ غصب ہوگا۔ اس کا گناہ ظلم سے بھی زیادہ ہے۔

 میراث پر قبضہ کرنے والے کے ذمے میراث کا مال قرض ہوگا، اور قرض بھی واجب الادا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہی ہوگا۔

 ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو، اس سے خیرات و صدقہ اور انفاق کرنا، حج و عمرہ کُرنے كا ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالٰیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے حرام مال كو قبول نهيں كيا جاتا

 جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔

 میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے كے لئے دوزخ میں داخل ہونے كي وعيد سنائى گئى هے ۔

 جو اشخاص میراث کا مال کھا جاتے ہیں حق دار وارث ان کو دل سے بد دعائیں دیتے ہیں۔ اور حديث مباركه ميں مظلوم كي بد دعا سے ڈرايا گيا هے

 میراث مستحقین کو نہ دینے والا حقوق العباد تلف کرنے کا مجرم ہے۔

 شریعت کے مطابق مال (ورثہ) تقسیم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک أهم ذمہ داری ہے، لہٰذا جو حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی، وہ اپنے فرائض میں کوتاہی كي مرتكب هوتی ہے۔


عورتوں كا حقِ ميراث معاف كرنا شرعاً معتبر نهيں
باپ كے مرتے هي جو عورتيں آمدني اور زمين وغيره لينے سے إنكار كر ديتي هيں وه إنكارشرعاً معتبر نهيں- أول توإس وقت صدمه تازه هوتا هے صدمه ميں اسے اپنے نفع نقصان كاخيال نهيں هوتا دوسرے جب رواج يهي پڑا هوا هے كه بهنوں كو ميراث سے محروم سمجها جاتا هے تو اپنا حق ليتے هوئے بدنامي سے ڈرتي هيں تيسرے إن كو اپنے حق كي خبر بهي نهيں هوتي كه كتنا اور كس قدر هے
صحيح  طريقه يه هے كه جب صدمه كا وقت گزر جائے تو انكو كهـ دو كه يه تمهارا شرعي حق هے يه تمهيں ضرور لينا پڑے گا پهر وه اپني آمدني كي مقدار بهي ديكهـ ليں إس كا لطف بهي أٹها ليں إس كے بعد اگر كوئى اپني دلى خوشي سے ديں تو كوئى مضائقه نهيں مگر  ديكهـ لينا  إس كے بعد سو ميں سے شايد إيك يا دو إيسي نكليں گي كه وه اپنا حق معاف كر ديں گي
بس جس طرح آجكل بهنيں / بيٹياں  اپنا حق بهائيوں وغيره كو معاف كرتي هيں وه شرعاً قطعاً معتبر نهيں اور حديث مباركه ميں صاف موجود هے كه خبردار كسي مسلمان كا مال بغير اس كے طيب خاطر (خوش دلي ) كے لينا حلال نهيں
( از مولانا أشرف علي تهانوي رحمة الله عليه - حقوق العباد صفحه - 64)


ميراث كي تقسيم ميں دوسروں كے حق كو غصب كرنا   
 ويسے تو هزاروں إيسے طريقے إيجاد كرلئے گئے هيں جن سے دوسروں كے حقوق غصب كيے جاتے هيں انكا بيان إن صفحات پر كرنا ممكن بهي نهيں ليكن حقوق غصب كرنے كے طريقوں ميں إيك اور طريقه جو همارے معاشره ميں موجود هے اور بدقسمتي سے إس لعنت ميں دنياداروں كے ساتهـ ديندار لوگ بهي برى طرح ملوث هيں وه هے تقسيم ميراث كے حواله سے الله تعالى كے حكم كا عملي طور پر إنكار كرنا اور دوسروں كے حق كو غصب كرنا بلكه ديكها يه گيا هے كه دنياداروں كو تو جب قرآن مجيد ميں الله كا حكم بتايا جاتا هے تو وه الله تعالى كے خوف سے سهم جاتے هيں اور أكثر أوقات مان بهي جاتے هيں اور الله تعالى كے حكم كے مطابق إس كو حل كرليتے هيں ليكن دين داري كے دعويويداروں كو جو خود بهي إس خدائى حد سے بخوبي واقف هوتے هيں اور پهر أنهيں كتنا هي الله تعالى كا حكم بتائيں ليكن ان كے اندر خوف خدا نهيں آتا وه الله تعالى كے حكم اور اپني موت كے بعد كي زندگي سے بے پرواه هوكر اپنے هي دلائل پر ڈٹے رهتے هيں
يه بهي ديكها گيا هے كه يه لوگ دوسري قباحتوں مثلاً چوري - رشوت - سود وغيره سے تو اپنے آپ كو بچانے كي كوشش كرتے هيں ليكن تقسيم ميراث ميں هيرا پهيرى كرنا گويا اپنا حق سمجهتـے هيں إن پر وهي مثال صادق آتي هے كه إيك شخص شراب تو نهيں پيتا كه وه حرام هے ليكن بے دهڑك اپنا هي پيشاب بغير كسي ركاوٹ كے پيتا هے إس ميں كوئى قباحت اور كراهت محسوس نهيں كرتا حالانكه شريعت كے مطابق دونوں حرام هيں
قرآن و حديث ميں ميراث كي تقسيم ميں كسي قسم كي هيرا پهيري كرنے والوں كے لئے بهت سخت وعيديں وارد هوئى هيں الله تعالى كے إس حكم كو بجالانے والوں كے لئے جنت كي بشارت اور إس سے كسي بهي طريقه سے روگرداني كرنے والوں كو دوزخ كي وعيد سنائى گئى هے درآصل اسلام کی نظر میں يه کس قدر گھناوٴنا اخلاقی، معاشی اور معاشرتی جرم ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجيد ميں إسے تفصيل كے ساتهـ بيان كيا گيا هے اور تمام حقداروں كے حصوں كي وضاحت بهي بالتفصيل كردي گئ هے ليكن مقام أفسوس هے كه دنيادار تو كيا ديندار لوگ بهي بهت ڈهٹائى كے ساتهـ الله تعالى كي إس حكم كو (جيسے الله كي حدود كها كيا هے ) توڑتے هوئے نظر آتے هيں اورقرآن مجيد كے إس كهلے حكم كے مقابله ميں اپنے هندؤانه دلائل دينے كي جسارت كرتے هيں مثلاً بيٹيوں كو كيونكه جهيز دے ديا جاتا هے إس لئے ميراث ميں ان كا كوئى حصه نهيں ، همارے خاندان ميں إسے بهت برا سمجها جاتا هے ، پهلے تو بيٹياں اپنا حصه نهيں ليتي تهيں يه إيك نئى ريت كيوں چلائى جا رهي هے - هماري ماں نے تو اپنے بهائيوں سے حصه نهيں ليا تها تو يه كيوں اپنا حصه طلب كررهي هيں وغيره وغيره گويا الله تعالى كے حكم كے مقابله ميں اپني عقل كے گهوڑے دوڑاے جارهے هيں
بعض لوگ تو اور بهي ظلم كرتے هيں كه اپنى زندگي ميں إيسي صورت حال پيدا كرديتے هيں كه بيٹياں اپنے حق سے محروم هوجائيں اور بعض اپني وصيت سے ان كو محروم كرنے كي كوشش كرتے هيں گويا اپنے لئے هميشه هميشه كے لئے آگ كے انگاروں كا إنتظام كرليتے هيں بهرحال يه سب شيطان كا دهوكه هے اور حكم خداوندي توڑنے والونكي بدقسمتي هے كه وه الله تعالى كے حكم كے مقابله پر هيں جسكا جواب بهرحال انهيں قيامت والے دن دينا هوگا

تقسیمِِ میراث اور دین ِاسلام کا اعزاز
دین ِاسلام کا یہ اعزازہے کہ اس نے جہاں دیگر معاملات میں افراط و تفریط کو ختم کیا وہیں ’’تقسیمِ میراث‘‘ کے معاملے میں بہترین طریقہ عطا فرمایا، محروموں کو حق دیا اور جابروں کو ان کی حدود میں رکھا اور ہر ایک کو اس کے مناسب حصہ عطا فرما دیا جیسے بطورِ خاص عورتوں اور یتیم بچوں کے حوالے سے خصوصی احکامات دئیے، عورتوں اور بچوں کو وراثت سے حصہ نہ دینے کی رسم کو باطل کرتے ہوئے قرآنِ مجید نے مرد وعورت میں سے ہر ایک کو اس کے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے مالِ وراثت میں حصہ دار قرار دیا ہے اور خاص طور پر یتیم بچوں کے مال کی حفاظت کرنے، بوقت ِ ضرورت انہیں ان کا مال دے دینے اور ان کے مال میں ہرقسم کی خیانت سے بچنے کا نہایت تاکیدی حکم دیا، اور ان کا مال کھانے کو اپنے پیٹ میں آگ بھرنا قرار دیتے ہوئے جہنم میں جانے کا سبب قرار دیا ہے جبکہ یتیم کے سرپرستوں کو تنبیہ و نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسے لوگوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر یہ انتقال کرجاتے اور اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑجاتے تو ان کا کیا ہوتا تو جس طرح اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند ہوتے اسی طرح دوسروں کی یتیم اولاد کے بارے میں فکر مند ہوں اور ان کے مال کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے خوف کرتے ہوئے احکامِ دین پر عمل کریں۔

تقسیمِ میراث اور فی زمانہ مسلمانوں کا حال
خوف ِ خدا اور فکر ِآخرت رکھنے والے مسلمان کے لئے بیان کردہ احکامِ قرآنیہ ہی نصیحت کے لئے کافی ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں کثرت سے دیگر مالی معاملات کی طرح وراثت کی تقسیم کے حکمِ قرآنی میں بھی بڑی کوتاہیاں واقع ہو رہی ہیں ، گویا میراث کی تقسیم میں جو ظلم اور اِفراط و تفریط دین ِاسلام سے پہلے دنیا میں پایا جاتا تھا وہی آج مختلف صورتوں میں مسلمانوں کے اندر بھی پایا جارہا ہے، جیسے لاعلمی کی بنا پر عاق شدہ اولاد یا بیٹیوں کو وراثت نہیں دی جاتی، یونہی بہت جگہ ان بیوہ عورتوں کو شوہر کی وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے جو دوسری شادی کر لیں ، جبکہ بہت سی جگہوں پر بطورِ ظلم یتیم بچوں کا مالِ وراثت چچا، تایا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکارہوجاتا ہے۔
اس سنگین صورتِ حال کے پیش ِنظر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وراثت کے متعلق دئیے ہوئے احکامات پر عمل کی طرف راغب کرنے اور اِن احکام کی خلاف ورزی کرنے پر عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے لئے علماء كرام نے بهت سي كتابيں تصنيف فرمائي هيں تاكه ٰ مسلماں إن سے نفع اٹهائيں اور إن کا مطالعہ کر کے انہیں اپنی اصلاح کی کوشش کرنے کی توفیق مل جائے،اٰمین۔

دین ِاسلام اور احکامِ میراث
میراث کی تقسیم چونکہ ایک اہم معاملہ ہے اور اس میں ظلم و ستم، حق تلفی، مالی بددیانتی اور آپس میں لڑائی فساد کا بہت اندیشہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ’’میراث‘‘ کے اکثر اَحکام قرآنِ پاک میں بڑی وضاحت سے بیان فرمائے ہیں اور اِن پر عمل کرنے کو متعدد انداز میں تاکید کے ساتھ بیان فرمایا جیسے شروع میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے اور یہ حکم بیان کرکے میراث کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمایا،
یُوۡصِیۡکُمُ اللہُ فِیۡۤ اَوْلٰدِکُمْ ٭ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتْ وٰحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وٰحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗۤ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ؕ  
(النساء)
ترجمۂ : اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کے لئے ترکے کا دو تہائی حصہ ہوگا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا حصہ ہے اوراگر میت کی اولاد ہوتو میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے ترکے سے چھٹا حصہ ہوگا پھر اگرمیت کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کے لئے تہا ئی حصہ ہے پھر اگر اس (میت) کے کئی بہن بھا ئی ہو ں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا، (یہ سب احکام) اس وصیت (کو پورا کرنے) کے بعد (ہوں گے) جو وہ(فوت ہونے والا) کر گیا اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔)

اور الله تعالى ارشاد فرماتا ہے :
وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوٰجُکُمْ اِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّہُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡنَ بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ؕ وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّکُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَ ۃٌ وَّلَہٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وٰحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکْثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ۙ غَیۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللہِ ؕ وَاللہُ عَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ 
ترجمۂ: اور تمہاری بیویاں جو (مال) چھوڑ جائیں اگر ان کی اولاد نہ ہو تواس میں سے تمہارے لئے آدھا حصہ ہے، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے۔ (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو انہوں نے کی ہو اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے) اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو توتمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لئے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاؤ اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔) اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ تقسیم کیا جانا ہو جس نے ماں باپ اوراولاد (میں سے) کوئی نہ چھوڑا اور (صرف) ماں کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہوگاپھر اگر وہ (ماں کی طرف والے) بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہوں گے (یہ دونوں صورتیں بھی) میت کی اس وصیت اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہوں گی جس (وصیت) میں اس نے (ورثاء کو) نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ بڑے علم والا، بڑے حلم والا ہے۔
میراث میں جو حصے مقرر کیے گئے، ان کی مقدار کی مکمل حکمت اور مصلحت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حصے بیان کرنے کے بعد واضح طور پر ارشاد فرما دیا کہ
اٰبَآؤُکُمْ وَاَبۡنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوۡنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا 
ترجمۂ: تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں کون تمہیں زیادہ نفع دے گا، (یہ) اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے۔ بیشک اللہ بڑا علم والا (اور) حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے
تِلْکَ حُدُوۡدُ اللہِ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ مِنۡ تَحْتِہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ 0 وَمَنۡ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خٰلِدًا فِیۡہَا ۪ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ0
ترجمۂ : یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے تواللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے۔

میراث سے متعلق بزرگانِ دین کی احتیاطیں 
اے کاش کہ مذکورہ بالا وعیدوں کو پڑھ کر ہر مسلمان اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق ہی میراث کو تقسیم کرے اور ان کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی سخت گرفت اور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کے رسوا کن عذاب میں مبتلا ہونے سے ڈرے۔ تقسیمِ میراث کی اسی اہمیت کے پیش ِنظر ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن اس معاملے میں کس قدر احتیاط فرماتے تھے یہاں ا س کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو

مالِ وراثت کا چراغ بجھا دیا
مروی ہے کہ ایک بزرگ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کسی قریبُ الْمرگ شخص کے پاس موجود تھے رات میں جس وقت وہ فوت ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ چراغ بجھا دو کہ اب اس کے تیل میں ورثاء کا حق شامل ہوگیا ہے۔

مالِ وراثت کی چٹائی استعمال کرنے سے منع کر دیا 
حضرت عبدالرحمن بن مہدی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ جب میرے چچا کا انتقال ہوا تو میرے والد بے ہوش ہوگئے، ہوش آنے پر فرمایا کہ چٹائی کو ورثاء کے ترکہ میں داخل کردو (اور اسے اب استعمال نہ کرو کیونکہ اس میں ورثاء کا حق شامل ہوگیا ہے۔)

مالِ وراثت کی چٹائی استعمال کرنے والے کو تنبیہ
حضرت ابنِ ابی خالد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں حضرت ابو العباس خطاب رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ساتھ تھا، آپ ایک ایسے شخص کی تعزیت کے لئے حاضرہوئے کہ جس کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا،آپ نے گھر میں ایک چٹائی بچھی ہوئی دیکھی تو گھر کے دروازے پر ہی کھڑے ہوگئے اور اس شخص سے فرمایا : کیا تیرے علاوہ بھی کوئی وارث ہے ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ! آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: تیرا اُس چیز پر بیٹھنا کیسا ہے جس کا تو مالک نہیں۔تو وہ شخص (اس تنبیہ کے بعد) اُس چٹائی سے اُٹھ گیا۔
یہ تو کسی کے انتقال کے بعد ا س کے مال سے متعلق بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کا حال تھا جبکہ اپنے مال اور اس کے ہونے والے ورثاء کے حوالے سے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کس قدر محتاط تھے، اس کی جھلک بھی ملاحظہ ہو

میں نے اپنی اولاد کو دوسروں کا حق نہیں دیا
چنانچہ مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وصال کے وقت مسلمہ بن عبدالملک ان کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی:اے امیرالمؤمنین! آپ نے ایسا کام کیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نے نہیں کیا،وہ یہ کہ آپ نے اولاد تو چھوڑی ہے لیکن ان کے لئے مال نہیں چھوڑا (کیونکہ آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے پاس مال تھا ہی نہیں بلکہ وہ تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے)۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:مجھے بٹھا دو۔ چنانچہ آپ کو بٹھا دیا گیا،پھرآپ نے فرمایا: تم نے جو یہ کہا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے مال نہیں چھوڑا،اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے ان کا حق ماردیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے انہیں دوسروں کا حق نہیں دیا اور میری اولاد کی دو میں سے کوئی ایک حالت ہو گی:
وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے۔اس صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں کافی ہو گا کیونکہ وہ نیکوں کا والی ہے۔
(وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں گے۔اس صورت میں مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا (کیونکہ وہ اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہیں۔)

اپنے مال سے متعلق ایک شرعی حکم
مذکورہ بالا حکایات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر شخص اپنے حال پر غور کر سکتا
ہے کہ اسے مالِ وراثت سے متعلق کس قدر احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، یہاں اس حکایت کی مناسبت سے ایک شرعی حکم یاد رکھیں کہ اپنا تمام مال راہِ خدا میں خرچ کردینا اور اپنے ورثاء کو محتاج چھوڑنا درست نہیں ، لہٰذا اگر اپنے مال کو نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنی بھی ہو تو ایک تہائی سے کم اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی تک وصیت کرنے کی اجازت ہے اوربقیہ دو تہائی مال ورثاء کے لئے چھوڑا جائے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّکَ اِنْ تَرَکْتَ وَلَدَکَ اَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِّنْ اَنْ تَتْرُکَھُمْ عَالَۃًَ یَّتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ‘‘
تیرا اپنے ورثاء کو غنی چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں محتاج چھوڑے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔


مالِ وراثت کے تعلق سے ہونے والے بڑے گناہ
 الله كرے کہ ہمارا ذہن ایسا ہوجائے کہ ان گناہوں کوجاننے اور ان کی وعیدیں پڑھنے كے بعد ہم پكي توبه كرليں اور آئنده كے لئے إن گناهوں سے اِجتناب برتيں تاكه ہم بھی ان لوگوں کے گروہ میں شامل ہوجائیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
 الَّذِیۡنَ یَسْتَمِعُوۡنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحْسَنَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمْ اُولُوا الْاَلْبابِ0
ترجمہ : جو کان لگا کر بات سنتے ہیں پھر اس کی بہتر بات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقلمند ہیں۔
مالِ وراثت کے حوالے سے لوگوں میں پائے جانے والے بڑے بڑے گناہ یہ ہیں۔

پہلا گناہ 
 وصیت کے ذریعے وارثوں کو محروم کرنا
مرنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ اپنے مال سے متعلق وصیت کر جائے اور اسلامی حکم کے مطابق اپنے مال کے ایک تہائی حصے تک وصیت کی اجازت ہے، مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں میراث سے محروم کرنے کی یہ صورت بھی عام ہے کہ دُنْیَوی رنجشوں اور ناراضیوں کی بنا پر بہت سے لوگ یہ وصیت کر کے مرتے ہیں کہ میرے مال میں سے فلاں کو ایک پائی تک نہ دی جائے، حالانکہ شرعی طورپر وہ اس کے مال کا حق دار ہوتا ہے، ایسے افراد کے لئے درج ذیل دو اَحادیث مباركه میں بڑی وعيديں هيں:

پہلی وعید 
وصیت کے ذریعے وارث کو نقصان پہنچانے والا نارِ جہنم کا مستحق ہے
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تعالى عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مرد و عورت ساٹھ سال (یعنی بہت لمبے عرصے) تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہیں ، پھر ان کی موت کا وقت قریب آجائے اوروہ وصیّت میں (کسی وارث کو) نقصان پہنچائیں ، تو ان کے لئے جہنم کی آگ واجب ہوجاتی ہے۔()

دوسری وعید
اپنی وصیت میں خیانت کرنا بُرے خاتمے کا سبب ہے
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی آدمی ستّر برس تک جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں خیانت کر بیٹھتا ہے تو اس کا خاتمہ بُرے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور کوئی شخص ستّر برس تک جہنمیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں انصاف سے کام لیتا ہے تو اس کا خاتمہ اچھے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔()

دوسرا گناہ
 مستحق وارث کو اس کا حصہ نہ دینا
دوسرا بڑ اگناہ یہ ہے کہ کئی صورتوں میں جہالت کی وجہ سے اورکئی جگہ غفلت کی وجہ سے اور کئی جگہ ظلم کی وجہ سے مستحق وارث کو اس کا حصہ نہیں دیا جاتا جیسے بہت سی صورتوں میں بہنوں یا بھائیوں یا نانی، دادی، دادا کا وراثت میں حصہ بن رہا ہوتا ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے نہیں دیا جاتا اوریونہی ماں کا حصہ بنتا ہے لیکن غفلت کی وجہ سے نہیں دیا جاتا جبکہ ظلما ًنہ دینا تو واضح ہی ہے۔ ان صورتوں کے حوالے سے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان سب سے مقدم ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارا دین ہمیں کیا حکم دے رہا ہے اور میراث سے محروم کرنے والوں كے لئے کیا وعیدیں هيں :
وارث کو اس کا حصہ دینا اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت ہے جبکہ اسے محروم کر دینا کافروں کا طرزِ عمل، احکامِ الٰہی کی صریح خلاف ورزی اورجہنم میں لے جانے والا عمل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
 وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا 0 وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا 0 
ترجمۂ: اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھا جاتے ہو۔ اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔
اورمیراث کے احکام کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
تِلْکَ حُدُوۡدُ اللہِ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ مِنۡ تَحْتِہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿﴾ وَمَنۡ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خٰلِدًا فِیۡہَا ۪ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ()
ترجمۂ: یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
’’مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثَ وَارِثِہٖ قَطَعَ اللہُ مِیْرَاثَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ 
یعنی جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو کاٹ دے گا۔

تیسرا گناہ  
دوسروں کی وراثت دبانا مالِ حرام حاصل کرنا ہے
کسی دوسرے وارث کا مال قبضہ جمانے والے کے لئے مالِ حرام ہے۔ حرام مال حاصل کرنا اور کھانا کبیرہ گناہ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے۔إيسے شخص كي نه تو دعائيں قبول هوتي هيں نه هي عبادتيں نه هي حج ، عمره وغيره
اَحادیث میں مالِ حرام سے متعلق بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،
یہاں ان میں سے چار وعیدیں ملاحظہ ہوں 

پہلی وعید
مالِ حرام سے صدقہ مقبول نہیں اور اسے چھوڑ کر مرنا جہنم میں جانے کا سبب ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی ِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے بُرائی کو مٹا دیتاہے۔بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا -

دوسری وعید
حرام غذا سے پلنے والے جسم پر جنت حرام ہے:
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔

تیسری وعید
لقمہِ حرام کھانے والے کے 40 دن کے عمل مقبول نہیں 
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ارشاد فرمایا:’’اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میري محمد ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔

چوتھی وعيد 
حرام کھانے پینے والے کی دعائيں قبول نہیں ہوتيں
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے،اس کے بال پراگندہ اوربدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یا رب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اورغذا حرام ہوپھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی -
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حرام مال حاصل کرنے سے بچنے اور حلال مال حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

چوتھا گناہ 
وارث کا مال غصب کرنا
کسی کی وراثت کا حصہ دبا لینا، ناحق مال کھانے میں داخل ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوٰلَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْبٰطِلِ 
اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔
جب کوئی وارث مالِ وراثت سے اپنے حصہ پر قبضہ کر لے يا پھر تقسيم سے پهلے هي دوسرا كوئي وارث اس کے حصے کو زبردستي يا دهوكه دهي سے چھین لے تو یہ کسی مسلمان کا مال ناحق غصب کرنا كهلاتا ہے۔
اَحادیث مباركه میں مسلمان کا مال ناحق غصب کرنے پر بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں - ان میں سے تین وعیدیں ملاحظہ ہوں :

پہلی وعید
غاصب کو بروزِ قیامت سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا
حضرت سعید بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے بالشت کے برابر كسي كي زمین ناحق لی تو قیامت کے دن اُسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔

دوسری وعید
غاصب کے فرائض و نوافل مقبول نہیں 
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جو زمین کے کسی ٹکڑے پرناجائز طریقے سے قابض ہوا تواسے سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔

تیسری وعید
غاصب قیامت کے دن کوڑھی ہو کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہو گا
حضرت اشعث بن قیس کندی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص دوسرے کے مال پر قبضہ کرے گا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کوڑھی ہوکر ملے گا۔
اللہ تعالیٰ اس بُرے اور ظالمانه فعل سے بھی ہماری سب كي حفاظت فرمائے،
(اٰمین يا رب العلمين)


پانچواں گناہ
 یتیم وارثوں کو ان کے حصے سے محروم کر دینا
وراثت کے مسئلے میں سنگین ترین صورت حال یتیم وارثوں کو ان کے حصے سے محروم کرنا اور انہیں حصہ نہ دینا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے هين درج ذیل آیت اور تين اَحادیث مباركه میں بڑی چار وعیدیں مقام عبرت ہيں

پہلی وعید
بطورِ ظلم یتیموں کا مال کھانے والے كا بھڑکتی آگ میں جانا
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوٰلَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَار
ترجمۂ: بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اورًَِّّٰۡعنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔

دوسری وعید
 مالِ یتیم ناحق کھانے والوں کے منہ سے آگ كا نکلنا
حضرت ابو برزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اُٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہوگی۔‘‘ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ارشاد فرمایا: ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا ،
’’ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوٰلَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕ ‘‘
ترجمۂ: بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں۔‘‘

تیسری وعید
 یتیموں کا مال ظلما ًکھانے والوں کا دردناک عذاب
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو اِن کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو اِن کےیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا:اے جبرائیل! (عَلَیْہِ السَّلَام)، یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی:’’یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے۔‘‘

چوتھی وعيد 
 یتیم کا مال ناحق کھانے والے كا جنت اوراس کی نعمتوں سے محروم ہونا
حضرت ابو هریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی ِکریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے: (1)شراب کا عادی۔ (2)سود کھانے والا۔ (3)ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔ (4)والدین کا نافرمان۔

یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟
یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآن پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں،انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔یہاں ایک اور اَہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بُری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو شرعی اَحکام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں مُلَوّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے دوسرے لوگوں کؤ لئے کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کؤ لئے بنائے جائیں اور صرف بالغ ورثاء کے مال سے ان کی اجازت سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گا اور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔

مالِ وراثت سے متعلق پائی جانے والی عمومی غفلتیں
میراث کے شرعی احکام سے لا علمی کی بنا پر جبکہ بعض اوقات فکر ِآخرت کی کمی اور اسلامی احکام پر عمل کا جذبہ نہ ہونے کی وجہ سے مالِ وراثت کے بارے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی غفلتوں اور کوتاہیوں کا اِرتکاب کیا جاتا ہے، یہاں ان میں سے چند غفلتیں ملاحظہ ہوں تاکہ مسلمان ان کی طرف توجہ کر کے اصلاح کی کوشش کر سکیں۔

پہلی غفلت
یتیم وارث کے مال سے میت کی فاتحہ،نیاز اور سوئم وغیرہ کے اخراجات کرنا
کسی شخص کا انتقال ہونے پر ا ُسے ثواب پہنچانے کے لئے ورثاء سوئم، دسواں ،چالیسواں ، فاتحہ اور نذر و نیاز کا اہتمام کرتے ہیں ،بهلي بات يه هے كه یہ اچھے اور باعث ِثواب اعمال نهيں ہیں بلكه بدعات كا مجموعة هيں جو قابل عمل نهيں هيں لیکن اس میں إيك اور بهت برى قباحت يه بهي ہے کہ ان اُمور پر ہونے والے اخراجات میت کے چھوڑے ہوئے مال سے کئے جاتے ہیں اور اس کے وارثوں میں یتیم اور نابالغ بچے بھی ہوتے ہیں اور ان کے حصے سے بھی وہ اخراجات لئے جاتے ہیں ،حالانکہ یتیموں یا دیگر نابالغ ورثاء کے حصے سے یہ کھانے پکا کر لوگوں کو کھلانا ناجائز و حرام ہے بلکہ اگر یتیم یا کوئی نابالغ وارث اجازت بھی دے دے تب بھی ان کا مال ان کاموں میں استعمال کرنا جائز نہیں

دوسری غفلت
یتیم اور نابالغ ورثاء کے حصوں سے بے جا اخراجات کرنا
یتیم بچوں کو وراثت میں جو حصہ ملتا ہے یا اس کے علاوہ ان کی اپنی کسی جائز کمائی یا تحفہ وغیرہ کے ذریعے جو مال انہیں ملتا ہے اسے خرچ کرنے کے حوالے سے عام گھروں میں بہت سی غفلتیں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں ،جیسے یتیم اور نابالغ وارثوں کا حصہ جدا نہیں کرتے بلکہ سبھی کے ساتھ مشترک رکھتے ہیں اور اسی مشترکہ مال سے صدقہ و خیرات کیا جا رہا ہوتا ہے، رشتہ داروں میں غمی خوشی کے مواقع پر لین دین چل رہا ہوتا ہے، گھر میں آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی ہو رہی ہوتی ہے،بھائی بہن کی شادی میں اور تعلیم وغیرہ میں وہی مال صرف ہو رہا ہوتا ہے۔ اس مشترکہ مال میں یہ سب تصرفات ناجائز و حرام ہیں کیونکہ اس میں یتیم کا مال بھی شامل ہے جسے ان معاملات میں خرچ کرنا جائز نہیں ،لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ یتیم اور نابالغ وارث کا حصہ جدا کر دیا جائے، اس کے بعد دیگر بالغ ورثاء باہمی رضامندی سے اِن معاملات میں مالِ وراثت خرچ کریں۔ یتیم کا مال گھر کے افراد کیلئے مشترکہ پکائے گئے کھانے اور اس سے ملتی جلتی چیزوں میں ملا لینا جائز ہے لیکن صدقہ و خیرات، مہمان نوازی اور رشتے داریوں کے لین دین میں دینا ہرگز جائز نہیں۔

تیسری غفلت
بیٹیوں اور بہنوں کو میراث سے حصہ نہ دینا
ہمارے معاشرے میں بیٹیوں اور بہنوں کو میراث سے ان کاحصہ نہ دینا بھی عام ہے حالانکہ باپ کے مال میں بیٹیوں کا حق قرآنِ مجید کی نصِ قطعی سے ثابت ہے جس طرح بيٹا وراثت ميں حقدار هے إسي طرح بيٹي بهي وراثت ميں حقدار هے جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ لڑکیوں کو أن كا حصہ نہ دینا حرامِ قطعی ہے،لہٰذا اگر والدین نے وصیت وغیرہ کے ذریعے بیٹیوں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا یا بیٹوں نے بہنوں کو ان کا حصہ دینے کی بجائے سارا مال يا مال كا كچهـ حصه صرف آپس میں تقسیم کر لیا، یا ان کا حصہ کسی غیروارث کو دے دیا تو یہ صريحاً ظلم ہے اور ایسے لوگوں پر توبہ کے ساتھ ساتھ بیٹیوں اور بہنوں کو ان کا حصہ لوٹا دینا لازم ہے اور ان کا یہ عذر کرنا غلط ہے کہ لڑکی کی شادی دھوم دھام سے کردی تھی،اس لئے وہ میراث کی حق دار نہیں ہے۔

چوتھی غفلت
بیٹیوں اور بہنوں سے وراثت کا حصہ معاف کروالینا
وراثت ایک ایسا مالی حق ہے جو لازمی طور پر خود بخود وارث کی ملکیت میں آجاتا ہے، وہ اسے بہر صورت لینا ہی ہے،نہ اسے معاف کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے معاف کروایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض اوقات وراثت کی حق دار عورتیں جیسے بیٹیاں اور بہنیں اپنا حصہ لینے کی بجائے معاف کر دیتی ہیں اور بعض اوقات وه اگر معاف نه بهي كرنا چاهيں تو دیگر رشتہ دار بهي انہیں اپنا حصہ معاف کر دینے کا ترغيباً کہتے هيں بهائيوں سے قطع تعلقي كا خوف دلاتے هيں اور بعض أوقات مختلف طريقوں سے اس پر اپنا أثر ورسوخ إستعمال كرتے هوئے معاف كرنے پر زور ديتے هيں ۔یہ دونوں صورتیں غلط ہیں-
يه إيك حقيقت هے كه إس طرح معاف کرنے یا کروانے سے شرعاً ان کا حصہ ختم نہیں ہوگا، مردوں پر لازم ہے کہ وہ حق دار عورتوں کو ان کا حصہ دیں اور عورتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے حصے کو اپنے قبضے میں لیں ،البتہ اگر اپنے حصۂ وراثت پر قبضہ کرنے کے بعد کسی جبر و اِکراہ اور زور زبردستی کے بغیر محض اپنی خوشی سے کسی دوسرے وارث کو اپنا حصہ دینا چاہیں تو اس کا اختیار انہیں حاصل ہے إس ميں كوئى حرج بهي نهيں
يهاں يه بات بهي زهن ميں رهے كه إيك تو ظالم وه هے جو إن بيچاري مظلوموں كا حق دبا كر اپني آخرت كو تباه كر رها هے ليكن دوسرا يه شخص جو انهيں مختلف حيلے بهانوں سے معاف كرنے كي ترغيب دے رها هے گويا كه ظالم كي مدد اور مظلوم پر زيادتي كررها هے يه بهي إس ظلم ميں برابر كا شريك هے قيامت والے دن جهاں وه ظالم (جو غصب كا مرتكب هورها هے ) كهڑا هوگا وهاں يه شخص جوحيلے بهانوں سے معاف كرنے كي ترغيب دے رها هے بهي ظلم ميں إعانت كي وجه سے مجرم كي حيثيت سے اس كے ساتهـ هوگا إس كا شرعي فرض يه بنتا هے كه وه إن كا پورا پورا حصه أنهيں دلوانے كي لئے اپنا اثر ورسوخ إستعمال كرے جو شخص حقدار كے حق كے لئے اپنا كسي طرح كا اثرو رسوخ إستعمال كرسكتا هے ليكن ظالم /غاصب سے تعلق كي بنا بر نهيں كرتا تو يه شخص بهي يقيناً گناه گار هے

پانچویں غفلت
بیوہ دوسری شادی کرلے تو اُسے پہلے شوہر کی میراث سے حصہ نہ دینا
جو عورت شوہر کے انتقال کے وقت اس کے نکاح یا اس کی عدت میں ہو وہ اپنے شوہر کی وارث ہے، پھر اگرچہ وہ عدت پوری ہونے کے بعد دوسری شادی کرلے تب بھی اس کا حقِ وراثت ختم نہیں ہوجاتا بلكه باقی رہتا ہے، ہمارے ہاں دوسری شادی کر لینے کی وجہ سے بیوہ کو اس کا حصہ نہیں دیا جاتا، یہ حکمِ الٰہی کی صریحاً خلاف ورزی اور ناجائز و حرام ہے اور ا س سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

چھٹی غفلت
زندگی میں والدین سے جائیداد تقسیم کرنے کا جبری مطالبہ کرنا
يه جو ہمارے ہاں اولاد اپنے والدین کو اس بات پر مختلف طریقوں سے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر دیں ، ان کا یہ جبری مطالبہ ناجائز ہے کیونکہ یہ والدین کی دل آزاری کا سبب ہے جو کہ ناجائز وگناہ ہے۔
زندگی میں ہرشخص اپنے مال اور اس میں تصرف کرنے کا مالک ہے،وہ جس کو جتنا چاہے دے سکتا ہے کیونکہ یہ دینا بطورِ میراث نہیں بلكه هديه هے كيونكه وراثت تو مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے
البتہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان اپنی جائيداد تقسیم کرنا چاہتا ہے يا كچهـ هدية دينا چاهتا هے تو اسے چاهيے كه وه سب بیٹے، بیٹیوں کو برابر برابر تقسيم كرے البته اگر اولاد میں کوئی علمِ دین سیکھنے سيكهانے اور دینی خدمت میں مشغول هونے كي وجه سے دنياوي طور پر كمزور هے يا خدمت دين كے لئے اسكي ضروريات هيں تو اسے دوسروں سے زیادہ دے سکتے ہیں۔

ساتویں غفلت
والدین کو اولاد کی وراثت سے حصہ نہ دینا
اولاد کے انتقال کے وقت اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں زندہ ہیں تو وہ بھی اپنی اولاد کے وارث ہیں اوراس کے ترکہ سے حصہ پائیں گے۔ ہمارے ہاں بعض جگہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اولاد تو والدین کے مال میں حصہ دار ہوتی ہے لیکن والدین اولاد کے مال میں حصہ دار نہیں ہوتے، یہ بات واضح طور پر غلط اور قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ ایک دوسری غفلت اسی صورت میں یہ ہے کہ ماں یا باپ کو وارث تو سمجھا جاتا ہے لیکن وراثت انہیں دی نہیں جاتی۔ والدین اگر فوری مطالبہ نہ کریں تو اگرچہ انہیں فوراً دینا ضروری نہیں لیکن عموماً اس طرح کے مقامات پر نہ دینے کا نتیجہ بالآخر کلی طور پر محروم کردینے کی صورت میں ہی نکلتا ہے یعنی والدین کو بالکل ہی وراثت نہیں دی جاتی۔

آٹھویں غفلت
باپ کی دوسری بیوی کوحصہ نہ دینا
جب باپ کی وراثت تقسیم کی جائے تو اس میں اس کی ہر بیوی کا حصہ ہوتا ہے اگرچہ وہ اولاد کے لئے سوتیلی ماں هي ہو کیونکہ سوتیلی ماں ہونا تو اولاد کے اعتبار سے ہے،جبکہ شوہر کے اعتبار سے تو وہ اس کی بیوی ہی ہے اور بیوی کا وراثت میں حصہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں میراث تقسیم کرتے وقت بعض اوقات باپ کی دوسری بیویوں یعنی سوتیلی ماؤں کو حقِ وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے حالانکہ وہ بھی بیوی کی حیثیت سے دوسری بیوی یعنی بچوں کی حقیقی ماں کی طرح وراثت کی حق دار ہے۔

نويں غفلت
میراث کی تقسیم میں تاخیر كرنا 
میراث کی تقسیم میں تاخیر کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں ، نسل در نسل ترکہ تقسیم نہ کرنے سے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ ترکہ کئی کئی پشتوں تک ایسے افراد کے تصرف و استعمال میں رہتا ہے جن کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود وہ دوسروں كے حق سے ناجائز نفع اٹھا رہے ہوتے ہیں جبکہ اس مال کے حقیقی مالک بے چارے نہ صرف بہت پریشان حال ہوتے ہیں بلکہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لوگوں کے سامنے قرض وغیرہ کے لئے دست ِسوال دراز کئے ہوئے ہوتے ہیں اور شاید اسی آس میں رہتے ہیں کہ کب میراث تقسیم ہواور ہمیں اپنا حصہ ملے۔ مگر افسوس! تقسیم کے بعد بھی ان کی امید دھری کی دھری رہ جاتی ہے کیونکہ اگر کبھی تقسیم کی نوبت آتی بھی ہے تو اس دورانیہ میں مزید کئی ورثاء کے انتقال کے باعث مالِ ترکہ صحیح طور پر تقسیم نہیں ہو پاتا جس کے نتیجے میں بہت سے حق دار اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کا مال غیر مستحق افراد کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ اسلام کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق جلد از جلد میراث کا مال بلا تأخير تقسیم کر دیا جائے۔

دسويں غفلت
 ميراث كي من ماني قيمت ادا كرنے پر إصرار كرنا
إيك غفلت يه بهي پائي جاتي هے كه عورتوں كي ميراث اونے پونے داموں خريدنے كي كوشش كي جاتي هے اور يهي من ماني قيمت ادا كرنے پر إصرار كيا جاتا هے كه يه مجهـے دے دو ميں تمهيں پيسوں كي شكل ميں قيمت دے دوں گا اول تو يه بهي صرف اس صورت ميں ممكن هے جب ميراث كے حقدار كو اس كا حق اس كے قبضه ميں دے ديا جائے پهر اس سے خريدنے ميں كوئى حرج نهيں ليكن يه بات بهي ياد ركهني چاهيے كه ميراث كي خريد وفروخت تب هي هوسكتي هے جب ميرات كا حقدار فروخت كرنے كے ليے اپني مرضي سے تيار هو جائے- إس مقصد كے لئے اسے پريشرائز كرنا يا زبردستي كرنا يا كسي بهي طريقه سے اسے مجبور كرنا درست نهيں هے اور ميراث كي قيمت بهي ميراث كے مالك كي مرضي پر هوگي وه جتني قيمت ميں فروخت كرنا چاهے گا وهي اس كي قيمت هوگي حقدار كے علاوه كسي دوسرے كو خواه وه كوئي بهي هو قيمت لگانے كا قطعاً كوئي أختيار نهيں إس طرح قيمت ادا نهيں هوگي

گيارويں غفلت
 زبردستي يا دهوكه سے دستخط كروا كر يا جعلي طريقه سے ميراث اپنے نام كروانا
إيك بهت بڑي مجرمانه غفلت يه بهي پائي جاتي هے كه دهوكه دهي سے جعلي طريقه سے يا زبردستي ڈرا دهمكا كر دستخط كروا كر كاغذات ميں ميراث اپنے نام كروانے كي كوشش كي جاتي هے تو يه سمجهنا چاهيے كه إس طرح جعلسازي كرنے واله قاروني قافله كا يه خدائى مجرم إيك يا دو نهيں بلكه بهت سے كبيره جرائم كا مرتكب هوتا هے - قرآني حدود كو پامال كرتا هے اور عملي طور پر آحاديث مباركه ميں موجود وعيدوں كا إنكار كرتا هے اگر خدانخواسته مرنے سے پهلے اپني زندگي ميں إس نے يه حقوق واپس نه كيے تو پهر قبر اور يوم حشر ميں إس كا كيا حشر هوگا إس كا اندازه كرنا شايد دهوكے كي إس دنيا ميں ممكن نه هو


بارهويں غفلت
 بهنوں/بيٹيوں كو پوري وراثت كا علم نه هونے دينا 
بعض أوقات إيسا بهي هوتا هے كه بهنوں/بيٹيوں كو پوري وراثت كا علم هي نهيں هوتا اور مرد ورثاء جن كو إس كا علم هوتا هے إس كو صيغئه راز ميں ركهـ ليتے هيں اور پهر خود تقسيم كرليتے هيں ياد ركهيں جس كو معلوم تها اور پهر بهي اس نے وراثت كے مال كو چهپايا تو وه بهي شرعاً ظالم ومجرم هوگا سو تمام ورثاء (خواه وه مرد هوں يا عورتيں) كے سامنے تمام وراثت كو بالتفصيل لانا إيك شرعي ذمه داري هے - ميت كي چهوڑي هوئي معمولي چيزوں (خواه وه مستعمل هي كيوں نه هوں) سے لے كر بڑى سے بڑي ماليت والي تمام چيزيں وراثت شمار هوں گي
عورتوں كو وراثت سے محروم كرنے كا إيك طريقه يه بهي إستعمال هوتا هے كه ان كو كهـ ديا جاتا هے كه چونكه مرحوم نے اپني زندگي ميں كهـ ديا تها يا يه وصيت كردي تهي كه فلاں جائيداد فلاں بيٹے كو ديدي جائے اور فلاں فلاں كو....... ليكن إس كے لئے إن كے پاس كوئى شرعي گواه يا ثبوت نهيں هوتا بلكه خود هي گواه بن كر يه كام كرتے هيں تو درآصل إس كے لئے شرعي گواه اور ثبوت كا هونا ضروري هے إس كے لئے بعض اوقات علماء كرام كي خدمات بهي حاصل كرلي جاتي هيں تاكه شك نه رهے ليكن إن بيچارے علماء كو صحيح صورت حال كا پته هي نهيں چلنے ديا جاتا إس لئے بس ان كا صرف نام إستعمال هوجاتا هے ميت كي وصيت إيسے شخص كے بارے ميں جوخود بهي ورثاء ميں شامل هو باقي تمام ورثاء كي رضامندي كے بغير شرعاً نافذ هو هي نهيں سكتي إسكي تفصيل كے لئے علماء حق كي طرف رجوع كرنا ضروري هے
مذکورہ بالا کلام کو سامنے رکھتے ہوئے تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ مالِ ترکہ کو قرآن وحدیث کے بیان کردہ حصوں کے مطابق اِن کے مستحقین میں تقسیم کردیں اور ترکہ کی تقسیم میں ہرگز ہرگز تاخیر نہ کریں بلکہ جس قدر جلدی ہوسکے ہر شخص کو اس کا حصہ دے دیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اسے استعمال کرسکے اور اگر ماضي ميں كوئى إيسي غلطي هو چكي هے تو ابهي بهي موقعه هے كه ان سے معافي بهي مانگي جائے اور أن كا پورا پورا حق بهي ان كو لٹا ديا جائے تاكه قيامت كے دردناك عذاب سے خلاصي هو جائے
اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین ثم آمين يا رب العلمين



میراث سے متعلق شرعی احکامات
جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے تواس کے مال و اسباب سے متعلق شریعت نے چار احکام دئیے ہیں 

حكم أول 
سب سے پہلے میت کے مال سے سنت کے مطابق اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کی جائے۔



حكم الثاني
پھر جو مال بچ جائے اس سے میّت کا قرضہ ادا کیا جائے،بیوی کا مہر اَدا نہ کیا ہو تو وہ بھی قرض شمار ہوگا۔



حكم الثالث 
پھر اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اُسے قرض ادا کرنے کے بعد بچ جانے والے مال کے تیسرے حصے سے پورا کیا جائے گا، ہاں اگر سب ورثا بالغ ہوں اور سب کے سب تیسرے حصے سے زائد مال سے وصیت پوری کرنے کی اجازت دیں تو زائد مال سے وصیت پوری کرنا جائز ہے ورنہ جتنے ورثاء اجازت دیں ان کے حصے کی بقدر وصیت پرعمل ہوسکتا ہے إسي طرح وصيت اگر كسي إيسے شخص كے لئے هو جو خود بهي وراثت كے ورثاء ميں شامل هے تو پهر تمام ورثاء كي آجازت ضروري هوگي ورنه وصيت نافذ نهيں هوگي

حكم الرابع 
وصیت پوری کرنے کے بعد جو مال بچ جائے اسے شرعی حصوں کے مطابق ورثا میں تقسیم کیا جائے۔
میت کے چھوڑے ہوئے مال و اسباب کے ورثاء قرآن و حدیث میں بیان کردئیے گئے ہیں لیکن ان میں مختلف افراد کے حصے مختلف ہیں اور یونہی مختلف افراد دوسروں پر مقدم ہوتے ہیں جیسے بہن اور بیٹی کے حصے مختلف ہیں اور بیٹا پوتے پر مقدم ہے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتا وراثت کا مستحق نہیں۔ لہٰذا جب وراثت کا مسئلہ پیش آئے تو علمِ میراث کے ماہر صحيح العقيده عالم سے باقاعدہ پوچھ کر عمل کیا جائے۔

میت پر ہاتھ رکھ کر عورت سے زبردستی 
مہر معاف کروانا
اگر شوہر نے اپنی زندگی میں بیوی کا حق مہر ادا نہ کیا اورنہ ہی عورت نے اپنی خوشی سے مہر معاف کیا تو اس صورت میں شوہر کے ترکہ سے بیوی کا حق مہر ادا کیا جائے گا اور چونکہ حق مہر قرض ہے لہٰذا کفن دفن کے اخراجات کے بعد جبکہ وصیت پوری کرنے اور ورثاء میں تقسیم سے پہلے ہی بیوی کا حق مہر ادا کیا جائے گا اور اس معاملہ میں ہمارے معاشرہ میں جو یہ طریقہ رائج ہے کہ میت پر ہاتھ رکھ کر عورت سے زبردستی مہر معاف کروایا جاتا ہے یہ بالکل غلط ہے، اس کی نہ تو کوئی شرعی حیثیت اور نہ ہی اس طرح معاف کرانے سے حق مہر معاف ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر حق مہر ادا کرنے سے پہلے بیوی کا انتقال ہوجائے تو اس صورت میں حق مہر کی رقم بیوی کے تمام ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی جس میں شوہر خود بھی حصہ دارہوگا۔

ميت كي وصيت

وصیت کرنے کا شرعی حکم
وصیت کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر مرنے والے کے ذمہ کسی قسم کے ’’حُقُوقُ اللہ‘‘ باقی نہ ہوں تووصیت کرنا مستحب ہے،اور اگراس پر حُقُوقُ اللہ کی ادائیگی باقی ہوجیسے اس کے ذمے کچھ نمازوں کا ادا کرنا باقی ہو، یا حج فرض ہونے کے باوجود ادا نہ کیا ہو، یا کچھ روزے چھوڑے تھے وہ نہ رکھے ہوں ، تو ایسی صورت میں واجب ہے کہ ان چیزوں کا فدیہ دینے کے  لئے وصیّت کرے۔
میت پر مالی حُقُوقُ الْعِبَاد جیسے لوگوں کا قرضہ ہو تو اسے وصیت میں اس لئے ذکر نہیں کیا کہ وراثت کی تقسیم میں وصیت سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کا جداگانہ حکم موجود ہے یعنی مال چھوڑ کر مرنے والا قرضوں کی ادائیگی کی وصیت کرے یا نہ کرے بہرصورت قرض ادا کیا ہی جائے گا۔
مستحب یہ ہے کہ انسان اپنے تہائی مال سے کم میں وصیت کرے خواہ ورثاء مالدار ہوں یا فقراء، البتہ جس کے پاس مال تھوڑا ہو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ وصیت نہ کرے جبکہ اس کے وارث موجود ہوں اور جس شخص کے پاس کثیر مال ہو وہ بھی تہائی مال سے زیادہ وصیت نہ کرے۔

ورثاء كے لئے وصیت کرنا
ورثاء کیلئے وصیت کرنا جائز نہیں ، چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں مگر یہ کہ اگر ورثاء چاہیں۔
البتہ اگر کسی نے اپنے وارث کے لئے وصیت کر دي هو اور دیگر ورثاء سب بالغ ہوں اور وہ اجازت بھی دے دیں تو وارث کے لئے وصیت جائز ونافذ ہوجائے گی اور اگر ورثاء میں بالغ ونابالغ سب شامل ہیں اور بعض ورثاء اجازت دیدیں تو ان اجازت دینے والوں میں سے جوبالغ ہیں صرف انہی کے حصوں میں یہ وصیت جائز ونافذ ہوجائے گی جبکہ یتیم وارث اور نابالغ وارث اور اجازت نہ دینے والے بالغ ورثاء کے حصوں میں یہ وصیت جائز ونافذ نہیں ہوگی۔

غير شرعي وصيت نافذ نهيں هوگي
ميت كي وهي وصيت نافذ هوگي جو شريعت كے آصولوں كے مطابق هو اگر ميت نے إيسي وصيت چهوڑي هو جو غير شرعي هو وه نافذ نهيں كي جائے گي مثلاً
اپني وصيت ميں كسي وراثت كے حقدار كو اس كے حق سے محروم كرديا هو يا ميت پر كسي كا قرضه تها وه زندگي ميں بهي ادا نه كيا اور كسي غصه كي وجه سے وصيت بهي كردي كه يه ادا نه كيا جائے يا وه زندگي ميں كسي كے حق پر ناجائز قابض تها پهر وصيت بهي كردي كه يه أنهيں نه دي جائے يا زندگي ميں كسي كي زمين/مكان وغيره پر ناجائز قابض رها اور مطالبه كے باوجود وه حقدار كو نه ديا اور پهر يه وصيت بهي كردي كه يه ان كو نه دي جائے وغيره وغيره
گو إس طرح كي وصيت كرنے والا گناه گار هوگا ليكن ورثاء كے لئے إس طرح كي كوئى بهي وصيت شرعاً قابل عمل نهيں هوگي اگر ورثاء نے جانتے بوجهتے هوئے إس غير شرعي وصيت پر عمل كيا تو وه بهي گناه گار هونگے حديث مباركه ميں إس بدقسمت شخص كے لئے دوزخ كي وعيد سنائى گئي هے


وصيت كے متعلق فرمانِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم
جس کی موت وصیّت پر ہو (يعني جو شرعي وصیّت کرنے کے بعد انتقال کرے) وہ عظیم سنّت پر مرا اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت پر ہوئی اور اس میں مرا کہ اس کی مغفرت ہو گئی۔ 
(ابن ماجہ)

نافرمان اولاد کو اپنی جائیداد سے عاق کرنے کی وصیت کرنا
جو شخص کسی شرعی عذر کے بغیر اپنے ماں باپ کا جائزحکم نہ مانے یا مَعَاذ اللہ انہیں اِیذاء پہنچائے وہ در حقیقت عاق اور شدید وعیدوں کا مستحق ہے اگرچہ والدین اسے عاق نہ کریں بلکہ اپنی فرط ِمحبت سے دل میں ناراض بھی نہ ہوں جبکہ جو شخص والدین کی فرمانبرداری میں مصروف رہے لیکن والدین شرعی وجہ کے بغیر ناراض رہیں یا وہ کسی خلافِ شرع بات میں اپنے والدین کا کہا نہ مانے اور اس وجہ سے والدین ناخوش ہوں تو وہ شخص ہرگزعاق نہیں۔ حکمِ شرعی یہ ہے کہ کوئی شخص عاق ہونے کی وجہ سے ماں باپ کے ترکہ سے محروم نہیں ہوسکتا اگرچہ والد لاکھ بار اپنے فرمانبردار، خواہ نافرمان بیٹے کو کہے کہ میں نے تجھے عاق کیا یا اپنے ترکہ سے محروم کردیا،نہ اس کا یہ کہنا کوئی نیا اثر پیدا کرسکتا ہے نہ وہ اس بنا پر کوئی ترکہ سے محروم ہوسکتا ہے۔البتہ اگر اولاد فاسق وفاجر ہے اور گمان یہ ہے کہ انتقال کے بعد وہ اس کے مال کو بدکاری وشراب نوشی وغیرہ بُرائیوں میں خرچ کر ڈالے گی تو اس صورت میں زندگی میں فرمانبردار اولاد کوسارامال دے کر اس پر قبضہ دلادینا یا اس جگہ کو کسی نیک کام کے لئے وقف کردینا جائز ہے کہ یہ حقیقت میں میراث سے محروم کرنا نہیں بلکہ اپنے مال اور اپنی کمائی کو حرام میں خرچ ہونے سے بچانا ہے۔

ساس سسر کے ترکہ میں داماد یا بہو كا حصه
ساس سسر کی جائیداد میں داماد یا بہو اپنے اس رشتہ کی وجہ سے کسی طرح وارث نہیں ہاں اگر کسی اور رشتہ کے طور پر وارث بنیں تو ممکن ہے مثلا ًداماد بھتیجا ہو اوردیگر مقدم ورثاء نہ ہوں تو اب یہی وارث ہوگا۔ٰ داماد یا خسرہونا اصلاً کوئی حقِ وراثت ثابت نہیں کرسکتا خواہ دیگر ورثاء موجود ہوں یانہ ہوں ہاں اگر اور رشتہ ہے تواس کے ذریعہ سے وراثت ممکن ہے مثلاً داماد بھتیجا ہے يا خسر چچا ہے تواس وجہ سے باہم وراثت ممکن ہے ایک شخص مرے اوردو وارث چھوڑے ایک دختراورایک بھتیجا کہ وہی اس کا داماد ہے تو داماد بوجہ برادرزدگی نصف مال پائے گا اوراگراجنبی ہے توکل مال دختر کو ملے گا داماد کا کچھ نہیں۔
وَاللہُ تَعالٰی اَعْلَم

لے پالک بچہ پرورش کرنے والے کا وارث ہوتا ہے یا نہیں ؟
اسلامی اعتبار سے لے پالک بچہ اپنے حقیقی والدین کا وارث ہوگا جبکہ پرورش کرنے والے کا وارث نہیں ہوگا۔ متبنّٰی (یعنی کسی کا منہ بولا بیٹا) ہونا شرعاً ترکہ میں کوئی اِستحقاق پیدا نہیں کرتا اس صورت میں زید اپنی حقیقی والدہ یا والد کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں ، تو جواب یہ ہے کہ بے شک پائے گا (کیونکہ) کسی کا اسے اپنا بیٹا بنا لینا اپنےحقیقی والدین کے بیٹے ہونے سے خارج نہیں کرتا۔

کیا منہ بولا بیٹا، بہن، بھائی وغیره بھی وارث ہوتے ہیں ؟
منہ بولا بیٹا نہ تو اس شخص کا جس نے اسے ليكر پالا هو كا بیٹا ہوتا ہے اور نہ ہی وه اپنے آصل باپ سے بے تعلق ہوتا ہے کیونکہ حقیقتوں میں تغیرنہیں ہوتا۔ شرعی طور پر وہ اپنے آصلي باپ کا وارث ہے نہ کہ اس دوسرے شخص کا جس نے اس کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے۔ اگردوسرا شخص چاہے تو منہ بولے بیٹے کے حق میں وصیت کردے تاکہ اس کا مال اس کے منہ بولے بیٹے کے ہاتھ میں آجائے اوریہ وراثت نہ ہوگی، ليكن خبردار! وارث کے لئے وصیت نہیں ہوتی، اور کسی کا منہ بولا بیٹا بن جانا اس کے لئے آصل باپ کی میراث سے مانع نہیں 
ہوتا يهي صورت حال منه بولے بهائي اور بهن كي هے انهيں بهي ميراث ميں سے كوئي حصه نهيں ملتا ۔

والدین کی زندگی میں جوبیٹا یا بیٹی فوت ہوجائے 
اس کا وراثت ميں حصہ ہوگا یا نہیں ؟
شرعی اعتبار سے کسی شخص کے انتقال کے وقت اس کے زندہ ورثاء ہی ترکہ کے وارث قرار پاتے ہیں لہٰذا جو بیٹا یا بیٹی اپنے والدین کی زندگی میں ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوجائے تواس کا والدین کے مال میں کوئی حصہ نہ ہوگا البتہ اگر اپنے والدین کے انتقال کے بعد اور ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے کسی وارث کا انتقال ہوجائے تو اس صورت میں وہ وارث ہوگا اور اس کا حصہ اس کے ورثاء کے مابین تقسیم ہوگا۔

کیا سوتیلے بہن بھائیوں کا بھی وراثت میں حصہ ہوتا ہے؟
اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ ایک طرف سے سوتیلے ہیں جیسے باپ کی طرف سے بہن بھائی ہیں جو دوسری عورت سے پیدا ہوئے جنہیں ’’علاتی‘‘ کہا جاتا ہے یا صرف ماں کی طرف سے بہن بھائی ہیں جو کسی دوسرے شوہر کے ذریعے پیدا ہوئے جنہیں ’’اَخیافی‘‘ کہا جاتا ہے تو یہ اپنی شرائط کے ساتھ ورثاء ہوتے ہیں جبکہ جو دونوں طرف سے سوتیلے ہوں کہ نہ باپ کی طرف سے ہوں اور نہ ماں کی طرف سے تو وہ بہن بھائی کے رشتے کے اعتبار سے ورثاء نہیں ہیں۔

دادا کی جائیداد میں پوتے کا حصہ
اگر کسی شخص کا انتقال ہوا اور اس کی اولاد زندہ نہیں ، پوتا زندہ ہے تو یہی اپنے دادا کی جائیداد کا وارث ہوگا البتہ اگر میت کا بیٹا اور پوتا دونوں زندہ ہوں تو اب پوتا اپنے دادا کی جائیداد کا وارث نہ ہوگا۔ایسی صورت میں وارث کو چاہئے کہ اپنے حصے سے کچھ مال اسے دیدے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنُ فَارْزُقُوۡہُمۡ مِّنْہُ وَقُوۡلُوۡا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوۡفًاترجمہ: اور جب تقسیم کرتے وقت رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس مال میں سے انہیں بھی کچھ دیدو اور ان سے اچھی بات کہو۔
اس حکم پر عمل کرنے میں مسلمانوں میں بہت سستی پائی جاتی ہے بلکہ اس حکم کا علم ہی نہیں ہوتا البتہ یہ یاد رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصہ میں سے دینے کی اجازت نہیں۔

بیوی کی موت کے بعد جہیز کا حقدار کون؟
عرفِ عام کے مطابق جہیز کی مالک عورت ہوتی ہے لہٰذا اس کے انتقال کے بعد جہیز کا سامان اس کے ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا جس میں شوہر بھی شامل ہوگا۔

  
اگر کسی وارث یا غیر وارث کے نام اپنی زندگی میں کوئی جائیداد کرادی لیکن قبضہ نہ دلایا اور انتقال ہوگیا تواب اس جائیداد کا مالک کون؟
جائیداد کسی کے نام کرنا تحفہ ہے اور شریعت میں تحفہ کے لئے اس پر قبضہ ضروری ہے، لہٰذا بغیر قبضہ کئے تحفہ دینے کا عمل شرعی اعتبار سے مکمل نہیں ہوتا لہٰذا اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں اپنا کوئی مال یا جائیداد زبانی یا تحریری طور پر کسی کے نام کردی، لیکن تحفہ لینے والے نے اس پر قبضہ نہیں کیا تو تحفہ مکمل نہ ہوگا بلکہ وہ چیز تحفہ دینے والے کی ملکیت پر ہی باقی رہے گی اور قبضہ سے پہلے اگر ان میں سے کسی ایک کا بھی انتقال ہوگیا تو یہ تحفہ باطل ہوجائے گااور تحفہ دینے والے کی موت کے بعد اس کے ورثاء میں ہی تقسیم ہوگا۔(يه بات بهي ياد رهے كه اولاد ميں كسي كو تحفه ديتے هوئے برابري كا سلوك كرنا ضروري هے ) قبضہ سے مراد کیا ہے؟ اور کس صورت میں کیسے قبضہ کیا جاتا ہے اِن مسائل میں کافی تفصیل ہے اس لئے اِن مسائل کے لئے کسی مستند دارُالافتاء میں رابطہ ضرور کرلیں۔



والد کے انتقال کے بعد ورثاء میں بعض افراد والد کا کاروبار سنبھالتے ہیں تو کیا سب ورثاء اس کاروبار اور اس کے

 نفع میں حصہ دار ہوں گے یا صرف کاروبار کرنے والے؟
مالِ ترکہ میں تمام ورثاء بطورِ شرکت ِملک شریک ہیں تمام ورثاء کی اجازت سے کاروبار سنبھالنے کی صورت میں ہر وارث اپنے حصہ کے مطابق کاروبار کے نفع ونقصان کا حقدار ہوگا اور اگر بعض ورثاء نے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر کاروبار سنبھالا اور مزید آگے بڑھایا تو اصل مال جو کہ میت کے انتقال کے وقت کاروبار میں تھا اس میں تو ہر وارث اپنے حصہ کی مقدار کا مالک ہوگا لیکن اس مال سے حاصل ہونے والے نفع  میں  دیگر ورثاء شریک نہیں ہوں گے بلکہ یہ نفع صرف انہی افراد کا ہے جنہوں نے کاروبار بڑھا کر نفع حاصل کیا البتہ ان کے لئے صرف اپنے حصہ کے مطابق نفع لینا حلال ہے اور دیگر ورثاء کے حصوں کے مطابق حاصل شدہ نفع ان کے حق میں مالِ خبیث ہے انہیں چاہئے کہ اپنے حصوں سے زائد نفع دیگر ورثاء کو ان کے حصوں کے مطابق دیں یا خیرات کریں اپنے خرچ میں نہ لائیں ، یہی حکم متروکہ جائیداد وغیرہ کے کرایوں کا بھی ہے۔
Share: