سال گزر گیا مگر ایک دفعہ بھی قرآن پاک کھول کر نہیں دیکھا اور الزام امام مسجد پر


 افریقہ کے ایک شہر میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔ ۔ اسی سبب رمضان المبارک میں لوگ اُسے افطاری کے لئے  اپنے گھر بلاتے تھے ۔ ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایا ۔ عالِم جی نے دعوت قبول کی، اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے،

وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا، ۔افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعا کی اور واپس چلے گئے، مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد, مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی، تو اسے یاد آیا کہ، اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی تھی،  لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی، اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ،  کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟  شوہر نے جواب دیا: نہیں، 

 اور پھر اس نے یہ بات شوہر کو بتائی کہ مہمان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر نہیں آیا  اور ہمارا بچہ دوسرے کمرے میں تھا، اور جھولے میں رہنے والا اتنا چھوٹا سا بچہ ویسے بھی چوری نہیں کرسکتا۔ بالآخر دونوں میاں بیوی اس نتیجہ پر پہنچے کہ رقم مہمان یعنی امام مسجد نے ھی چوری کی ہے

یہ سوچتے ہوئے میزبان کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی، کہ یہ کیسا عالم ھے کہ ہم نے حافظ صاحب کو اتنے عزت و احترام کے ساتھ اپنے گهر بلایا، اور انہوں نے چوری جیسے جرم کا ارتکاب کیا، حالانکہ اس شخص کو تو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا، نہ کہ چور ڈکیٹ،

غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے شرم کے مارے اس بات کو چهپا لیا،  لیکن درعین حال عالِمِ دِین سے دور دور رہنے لگا  تاکہ سلام دُعا نہ کرنی پڑے، اسی طرح مکمل سال گذر گیا اور پھر رمضان المبارک آگیا، 

اور لوگ پھر اسی خاص محبت اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے گھروں میں دعوت کے لیے بلانے لگے ۔ اس شخص نے اپنی زوجہ سے کہا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ۔ مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں؟ زوجہ نے کہا: ھمیں مولانا صاحب کو ضرور بلانا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو،۔ ہم انہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ الله کریم بھی ہمارے گناہ معاف کردے،اور پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا۔ 

جب افطار وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو میزبان نے معزز مہمان سے کہا جناب آپ متوجہ تو ھوئے ہونگے کہ سال بھر سے آپ کے ساتھ  میرا رویہ کچھ تبدیل ھو گیا ہے؟ عالم نے جواب دیا:  ہاں,  لیکن زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں تم سے اس کی وجہ معلوم نہ کرسکا، 

میزبان نے کہا 

قبلہ! میرا ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے آپ اس کا واضح جواب دیں گے، پچھلے سال رمضان المبارک میں میری زوجہ نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی، اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی تھی ، اور آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں نہیں ملی، کیا وہ رقم آپ نے اُٹھا لی تهی؟

عالم دین نے کہا:

 ۔ جی ھاں وہ رقم میں نے ھی اُٹھائی تهی  میزبان یہ سن کر اور بھی زیادہ حیران پریشان ہو گیا، اور عالِمِ صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال رمضان  المبارک کے مہینے میں جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تو میں نے دیکها کہ، کاونٹر پر کچھ پیسے رکھے ہوئے ہیں، چونکہ تیز ہوا چل رہی تھی، اور نوٹ ہوا سے ادھر ادھر اڑ رہے تھے، لہذا میں نے وہ نوٹ اٗٹھا کر جمع کئے، اور سوچنے لگا انہیں کہاں رکھوں اور میں وہ رقم فرش کے نیچے یا کہیں اور نہیں رکھ سکا کہ، ایسا نہ ہو تم وہ رقم نہ ڈھونڈ سکو، اور پریشان ہو جاؤ ۔ اس کے بعد عالم نے زور سے اپنا سر ہلایا، اور اُونچی آواز میں  زارو قطار رونا شروع کر دیا، میزبان بہت حیران و ہریشان تھا کہ یہ ماجرہ کیا ھے ؟ اور پھر مولانا صاحب نے میزبان کو مخاطب کرکے کہا: میں اس لئے نہیں رو رہا کہ،تم نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا، اگرچہ یہ بھی بہت  ھی دردناک ہے  لیکن! میں اس لئے  رو رہا ہوں کہ، 365 دن گذر گئے، اور تم میں سے کسی نے بھی قرآنِ کریم کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها،اور اگر تم قرآن پاک کو ایک بار بھی کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن پاک  میں رکھی ھوئی مل جاتی، کیونکہ میں نے اسی  خیال سے وہ رقم قرآن پاک میں رکھ دی تھی کہ قرآن پاک تو آپ نے ہڑھنا ھی ھو گا اور جب آپ قرآن پاک کھولیں گے تو رقم آپ کو مل جائے گی 

یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید پر پڑی ھوئی گرد و غبار کو صاف کرتا ھوا اسے اٹها کر لے آیا ، اور عالم صاحب کے سامنے جلدی سے قرآن پاک کو کھولا، تو حیران ھوا کیونکہ اس کی مکمل رقم قرآن مجید میں رکھی ھوئی اُسے مل گئی تھی  ۔ 

مقامِ آفسوس ھے کہ یہ حال ہے آج ہم مسلمانوں کا کہ ، سال بھر میں ایک مرتبہ بھی قرآن پاک نہیں کهولتے، اور پھر بھی اپنے آپ  کو حقیقی اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔۔۔

Share:

بیٹا اور بیٹی دینا صرف اللہ پاک دیتے ھیں

 


لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(50)

ترجمہ: کنزالایمان

اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بےشک وہ علم و قدرت والا ہے

القرآن : (آیت 49 سے 50) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) اور کسی دوسرے کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں دیا۔ ہدایت اور ہر قسم کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ یہاں تک انسان اپنی اولاد کے بارے میں بھی اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے صرف بیٹیاں ہی عنایت کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے صرف بیٹے عطا کرتا ہے۔ کسی کو بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے اور کسی کو زندگی بھر کچھ بھی نہیں دیتا ۔ وہ ہر چیز کا کامل اور اکمل علم رکھنے کے ساتھ ہر کسی پر قدرت رکھنے والا ہے۔ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے حوالے سے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اے انسان! جس رب کے ساتھ تو کفر و شرک کرتا ہے اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے بیٹے، بیٹیاں دے اور جسے چاہے اسے بے اولاد رکھتا ہے۔ 

دنیا میں کوئی ایسا ایک بھی جوڑا نہیں جو اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کو جنم دے سکے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ذات ہے جو کسی کو بیٹے یا بیٹیاں دے سکے اور جسے اللہ تعالی اولاد نہ دینا چاھیے کوئی طاقت ایسی نہیں ھے جو اسے اولاد دے سکتا ہو ۔ سوچنے کی بات ھے کہ جب انسان اپنے رب کے سامنے اتنا بے بس ہے تو اسے دل کی رغبت کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے تاکہ دنیا میں اس کا بھلا ہو اور آخرت میں وہ سرخرو ہوسکے۔ اس کے باوجود یہ بیوقوف انسان  کسی کو داتا کہتا ہے اور کسی کو اپنا دستگیر بنائے ہوئے ہے۔ حالانکہ جس شخصیت کو داتا کہا جاتا ہے وہ بیچارہ خود اہنے آپ کو اولاد دینے ہر قدرت نہیں رکھتا تھا اس لئے وہ زندگی بھر بیٹے اور بیٹی سے محروم رہا ۔ (

ہمارے معاشرے میں بیٹی کو ناپسند کرنے کی روش پروان چڑھتی جا رہی ہے بہت سے گھرانوں میں بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے بیوی پر جسمانی اور ذہنی تشدد , طرح طرح کی باتیں , طلاق کی دھمکیاں , گھر سے نکالنا , کوستے رہنا اور اس کی زندگی کو جہنم بنا دینا، معمول بن چکا ہے ۔ جن لوگوں کا تقدیر  پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ۔ ایمان کی کمزوری کے سبب جن بدعقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں،  یہ سرا سر غلط ہے ۔ گو میڈیکل کے اعتبار سے صرف لڑکیوں کا پیدا ھونا بیوی کی وجہ سے نہیں بلکہ میاں  کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ھوتا ھے جس کا علاج بھی کیا جاتا ھے تاھم اسلام کا نقطۂ نظر یہ ھے کہ اس میں بیویوں کا یا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں ۔ پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے ۔ وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔

لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں کئی مائیں بچی کی طرف توجہ نہیں دیتیں ، بعض مائیں دودھ ہی نہیں پلاتیں اور یوں بیٹی کے قتل کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ بیٹی کی پیدائش پر اسے ہسپتال ہی چھوڑ آنا یا گاڑی کے اندر ہی چھوڑ جانا یا گلا دبا کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دینا معمول کی خبریں بن چکی ہیں ۔  اللہ کے لیے بیٹیوں سے ایسا سلوک مت کریں۔  یہ بیٹیاں رب تعالی کی رحمت ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ  کےسرکاتاج ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ  کاسہارا ہوتی ہیں ۔ باپ اور بھائیوں کےفیصلےکےسامنےاپنی خواہشات کودفن کردیتی ہیں یہ بیٹیاں ماں باپ کےدکھ درد میں ہروقت شریک رہتی ہیں


اے انسان ذرا سوچ کہ وہ عورت جو تیری ماں کے روپ میں ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے ایک ہی پیٹ سے نکلی تیری بہنیں تیری ماں کی بیٹیاں ہیں , تو نے بھی کسی کی بیٹی سے ہی نکاح کیا ہے , اگر آج اللہ نے تیرے ہی گھر رحمت نازل کی بھی ہے تو وہ تجھے اب کیوں زحمت لگنے لگی ہے۔ بیٹی کا قتل کبیرہ گناہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں


وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ [التكوير : 8]

اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔


بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ [التكوير : 9]

کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی؟


دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا [الإسراء : 31]

اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔


یہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کا سبب موجودہ یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے ۔ آج بیٹیوں کے قتل کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں یہی خوف کارفرما ہے کہ بیٹی بڑی ہو کر بوجھ بنے گی ۔ اسے جہیز دینا پڑے گا ۔ کما کر کھلانا پڑے گا وغیرہ وغیرہ 

حضرت  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا  کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو


بیٹی کی پیدائش پر منہ چڑھانا کفار کا طریقہ ہے


بیٹی کی پیدائش پر پریشان و غمگین ھونا ھمیشہ سے  کفار کا طریقہ رھا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی حالت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [الزخرف : 17]

حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جائے جس کی اس نے رحمان کے لیے مثال بیان کی ہے تو اس کا منہ سارا دن سیاہ رہتا ہے اور وہ غم سے بھر ا ہوتا ہے۔


سورہ نحل میں ہے

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [النحل : 58]

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا منہ دن بھر کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔


يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [النحل : 59]

وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ آیا اسے ذلت کے باوجود رکھ لے، یا اسے مٹی میں دبا دے۔ سن لو! برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔


کظیم کا معنی


 ’’ كَظِيْمٌ ‘‘ کا معنی ’’ كَتْمٌ ‘‘ (چھپانا) ہے، یہ ’’ كَظَمَ الْقِرْبَةَ ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ جب مشکیزہ پانی سے بھر جائے، پھر اس کا منہ باندھ دیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی پھٹ جائے گا، مراد غم سے بھرا ہوا ہے، یعنی لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر سارا دن غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا رہتا ہے، مگر وہ غم سے بھرا ہونے کے باوجود اظہار نہیں کرتا۔ اپنے خیال میں اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، اس لیے اس خوش خبری کو وہ اتنا برا سمجھتا ہے کہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے، آیا اسے اپنے پاس رکھے اور جاہل معاشرے کی نظر میں ذلیل ہو کر رہنا برداشت کرے یا اسے مٹی میں چھپا دے، یعنی زندہ دفن کر دے۔


اللہ کی مرضی ہے بیٹی عطا کرے یا بیٹا یا دونوں یا کوئی بھی نہیں


بیٹی جنم دینے میں بیوی بے قصور ہے بلکہ میاں اور بیوی دونوں ہی بے قصور ہیں کیونکہ یہ فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ [الشورى : 49]

آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔


أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ [الشورى : 50]

یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

 اس آیت میں یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں، جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی اور نہ ہی اس میں کسی نبی یا ولی، داتا، دستگیر یا دیوی دیوتا کا کوئی حصہ ہے، اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ کتنے جابر بادشاہ اور سپہ سالار، کتنے انبیاء و اولیاء اور کتنے ماہر ڈاکٹر اور حکیم اولاد سے محروم رہے، کتنے لڑکے کو ترستے رہے اور کتنے لڑکی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور جو چاہے دیتا ہے، چنانچہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا لڑکے لڑکیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے مرد ہو یا عورت عقیم (بانجھ) بنا دیتا ہے، کسی کو اس پر اعتراض یا شکوے کا کوئی حق نہیں۔  اگر مشرکین اس حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی شرک کی حماقت نہ کریں۔


بیٹی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے


 ’’ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا ‘‘ میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا گیا ہے۔


 جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ کسی عام ذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ تحفہ پر منہ چڑھانے کی وجہ سے کہیں اس کے غضب کا شکار نہ بن جائیں اور کسی ایسے جوڑے کے احساسات معلوم کرنے چاہییں جنھیں لڑکی بھی عطا نہیں ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹیوں کا ذکر فرمایا، پھر بیٹوں کے عطا فرمانے کا ذکر کیا۔

 امام ابن قیم اس بارے لکھتے ہیں اللہ سبحانہ نے بیٹیوں کو مقدم کیا ہے، جن کو اہل جاہلیت مؤخر کرتے تھے، گویا کہ یہ بیان کرنا مقصود تھا، کہ تمہاری طرف سے نظر انداز کی ہوئی یہ حقیر قسم میرے  نزدیک ذکر میں مقدَّم ہے

بیٹیاں ہی دکھ درد میں والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہیں عورت فطری طور پر محبت کی مٹی میں گوندھی ہوتی ہے مامتا اس کا بنیادی وصف ہے وہ بہن کے روپ میں بھی مامتا سے مالا مال ہوتی ہے چھوٹے بہن بھائیوں سے اس کا طرز عمل ماں جیسا ہوتا ہے ۔ ایسے واقعات بہت ہیں کہ بہن مالدار ہوتو بھائیوں کا ضرور خیال رکھتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہے کہ بھائی مالدار ہوں اور بہن کا خیال رکھتے ہوں


بہت جگہوں پر مشاہدہ کیا گیا ہے مثال کے طور پر ایک شخص مریدکے میں رہتا ہے اس کے چار بیٹے اور چار ہی بیٹیاں ہیں


ایک بیٹی کی شادی لاہور دوسری کی شیخوپورہ تیسری کی گوجرانوالہ اور چوتھی کی شادی نارووال میں کی گئی ہو جب کبھی وہ شخص بیمار ہو یا ان بیٹیوں کی ماں بیمار ہو تو گھر میں موجود چاروں بیٹے تو شاید خدمت کریں یا نہ کریں لیکن وہ چاروں بیٹیاں ضرور حاضر خدمت ہوں گی چاہے وہ اکٹھی آجائیں یا آپس میں باری مقرر کرکے ایک ایک ہفتہ آتی رہیں یہ سب الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِیَاتُ کی عملی تصویر ہے


بیٹیاں دوزخ کی آگ کے سامنے پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی

اسلام نے بیٹیوں کے حقوق کما حقہ ادا کرنے والوں کو اس قدر خوشخبریاں دی ہیں کہ اتنی خوشخبریاں دس بیٹے رکھنے والوں کو بھی نہیں دی گئی

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

’’مَنْ کَانَ لَہُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ، وَأَطْعَمَھُنَّ، وَسَقَاہُنَّ، وَکَسَاھُنَّ مِنْ جِدَتِہِ کُنَّ لَہُ حِجَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘


أخرجه أحمد (17403)، والبخاري في "الأدب المفرد” (76)،تحقيق الألباني:صحيح، الصحيحة (294)


[جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، اور وہ ان پر صبر کرے، انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے، تو وہ اس کے لئے روزِ قیامت پردہ ہوں گی (یعنی دوزخ کی آگ کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی۔)]


 امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: ’’میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ آئی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا، لیکن اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اس کو لے کر ان دونوں میں تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چلی گئی۔


 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کا واقعہ سنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:


’’مَنْ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ، فأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔


[جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا، تو وہ اس کے لیے [جہنم کی] آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔‘‘]

(متفق علیہ) 


امام الخرائطى رحمہ اللہ فرماتے ہیں سيدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کی چھوٹی بیٹی دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئی، تو اٹھا کے گلے لگا کر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگے : خوش آمدید اے عبدالله کو جہنم کی آگ سے بچانے والی خوش آمدید

مکارم الاخلاق ٦٣٤ ]

ممممممممممممممممممم

بیٹیاں جنت میں لے جائیں گی


 حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں اور وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں،یا جب تک وہ ان کے ساتھ رہے ، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کردیں گی۔


(جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں ) کا مطلب یہ ہے کہ ان کا نکاح ہو جانے تک ، یا نکاح سے پہلے فوت ہو جانے تک ان سے اچھا سلوک کرے، ان کی اچھی تربیت کرے، ان کی جائز ضروریات پوری کرے۔ (جب تک وہ ان کے ساتھ رہے۔) کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کا نکاح کرنے سے پہلے فوت ہو جائے اور اپنی وفات تک ان سے اچھا سلوک کرتا رہے تو جنت میں داخل ہو جائے گا۔ بیٹیوں کی پرورش اور تربیت کرنے والا جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے ہوگا جیسے ہاتھ کی ایک انگلی دوسری کے ساتھ ہوتی ہے


حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:



[’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی، بلوغت کو پہنچنے تک، پرورش اور تربیت کی، وہ قیامت کے دن [اس طرح] آئے گاکہ میں اور وہ۔‘‘اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی انگلیوں کو [ایک دوسری سے] ملا دیا۔]

صحیح مسلم، 


 (وضَمّ أصَابِعَہُ) اس سے مراد یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی دو انگلیوں یعنی شہادت اور درمیانی انگلیوں کو آپس میں ملایا اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے درجہ اور اس کے درجہ میں اسی قدر تفاوت ہوگا، جس قدر فاصلہ ان دونوں انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے۔یہ بھی احتمال ہے، کہ اس سے مراد یہ ہو، کہ جنت میں داخلہ کے وقت وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس قدر قریب ہوگا۔ اور اس بات کا بھی احتمال ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے اشارے کا مقصود دونوں باتیں ہی ہوں، کہ وہ جنت میں بہت جلدی داخل ہوجائے گا، کیونکہ وہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ہوگا اور اس کا مقام و مرتبہ بھی جنت میں بہت بلند ہوگا


بيٹی کی پرورش کرنے والی ماں جنت میں داخل ہو گی


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا   میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بیٹیاں اٹھائی ہوئی تھیں، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے کہا ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دی، (بچی ہوئی) ایک کھجور کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی، تو وہ بھی اس کی دو بیٹیوں نے کھانے کے لیے مانگ لی، اس نے وہ کھجور بھی جو وہ کھانا چاہتی تھی، دو حصے کر کے دونوں بیٹیوں کو دے دی۔ مجھے اس کا یہ کام بہت اچھا لگا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا:

 "اللہ نے اس (عمل) کی وجہ سے اس کے لیے جنت پکی کر دی ہے یا (فرمایا: ) اس وجہ سے اسے آگ سے آزاد کر دیا ہے۔”

مسلم 

’’انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘

امام احمدکے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں، کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ، تو وہ فرماتے:’’ 

[’’انبیاء علیہم السلام  بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘]


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بیٹیاں

بیٹی کی پرورش کے حوالے سے یہی بات بہت بڑی ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی چار بیٹیوں کے باپ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جایا کرتے۔ عموماً سفر سے واپسی پر ازواج مطہرات کے حجروں میں جانے سے پہلے انہی کے گھر جاتے۔ آپ اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لیے اٹھ کر آگے بڑھتے انہیں خوش آمدید کہتے۔ انہیں بوسہ دیتے۔ ان کا ہاتھ تھام لیتے اور مجلس میں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھاتے۔ بیٹی کے استقبال میں ان سب باتوں کا اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عام معمول تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے بیٹی کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیٹی کو تھکاوٹ کی پریشانی کا تریاق بتاتے ہوئے نماز کے بعد اور بستر پر آنے کے بعد پڑھنے والے کلمات بھی سکھلائے۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبزادی کو دنیاوی زیب و زینت سے دور رکھنے کی سعی فرمائی، بیٹی کو باپ پر آس لگانے کی بجائے خود دوزخ کی آگ سے بچاؤ کی خاطر کوشش کرنے کی تلقین فرمائی۔   اپنی بیٹیوں کو صبر کی تلقین فرماتے۔ صاحبزادی کو اپنی وفات کی قبل از وقت خبر دیتے وقت تقویٰ اور صبر کی تلقین فرمائی۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی صاحبزادیوں کی عائلی زندگی کے معاملات کی طرف خصوصی توجہ فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی شادیوں کا خود اہتمام فرمایا، رخصتی کے وقت بیٹی کو تحائف دئیے، بیٹی کی عائلی زندگی میں ہونے والے نزاع کی اصلاح فرمائی۔ داماد کو رہا کرتے وقت بیٹی کو بھیجنے کی شرط لگائی      بیٹی کی وفات پر شدتِ غم کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، لیکن زبان سے صبر کے منافی ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ صاحبزادیوں کی وفات پر شدتِ الم و رنج کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی تجہیز، تکفین اور تدفین کا بندوبست ذاتی نگرانی میں کرواتے۔

بیٹے اور بیٹی میں تقابل


عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر بیٹا والدین کے سامنے بہنوں کو مار رہا ہو یا گالیاں دے رہا ہو تو والدین کچھ بھی نہیں کہتے لیکن اگر کبھی بیٹی ایسا کرے تو فوراً ٹوک دیتے ہیں بیٹا غلطی کرے تو پیار سے سمجھاتے ہیں بیٹی غلطی کرے تو ڈانٹتے ہیں بیٹا بیمار ہو تو والدین کی جان پر بن جاتی ہے بیٹی بیمار ہو تو فکر ہی نہیں ہوتی عام طور پر بیٹے کو ترجیح اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ معاشی سہارا بنتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ بیٹی کچھ بھی نہیں کماتی0  حالانکہ اگر بیٹی کچھ نہیں کماتی تو بیٹے بھی جب کمائی کے قابل ہوتے ہیں تو اکثر والدین کو ان کی کمائی پر اختیار ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ گھر میں رزق بیٹی ہی کی وجہ سے آ رہا ہو کیونکہ بیٹی کمزور ہوتی ہے اور حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( تم اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیئے جاتے ہو) بیٹی کے متعلق خیال ہوتا ہے کہ اس نے پرائے گھر چلے جانا ہے جبکہ اکثر بیٹے بھی شادی کے بعد الگ گھر آباد کرلیتے ہیں


اگر بیٹی کی حفاظت ایک داخلی معاملہ ہے تو بیٹے کو کنٹرول کرنا ایک خارجی اور اس سے بھی سخت معاملہ ہے بیٹی کو جہیز دینا پڑتا ہے تو بیٹے کے لیے بھی بھری چڑھانا پڑھتی ہے دونوں کی شادی کے اخراجات تقریباً برابر ہیں اس پر مستزاد یہ کہ بیٹے کو مہنگا مکان بنا کر دینا پڑھتا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے سے نسل چلتی ہے، یہ تصور انتہائی فرسودہ ہے لوگوں کو دوسری تیسری نسل میں دادا پردادا کا نام تک یاد نہیں رہتا اور اتنی کو دیر تو لڑکی کی اولاد یعنی نواسے نواسیاں بھی یاد رکھ لیتی ہیں کہتے ہیں کہ بیٹا بڑا ہو کر باپ کی جگہ کام کرتا ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بیٹی بھی بڑی ہو کر ماں کی جگہ کام کرتی ہے نہیں تو کسی ایسے جوڑے سے مل کر ان کے حالات پوچھ لیں جن کے چھے سات بیٹے ہوں اور بیٹی کوئی بھی نہ ہو

ممممممممممممممممم

اگر بیٹا نعمت ہے تو بیٹی نیکی ہے


امام ابن عبد البر المالكي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :


 ” البنون نعم، والبنات حسنات، والله -عز وجل- يحاسب على النعم ،ويجازي على الحسنات


 بیٹے نعمتیں ہیں اور بیٹیاں انسان کی نیکیاں ہیں اللہ تعالی نعمتوں کا حساب لے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا کرے گا


بعض اوقات بیٹی، بیٹے سے بہتر ہوتی ہے


قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عمران کی بیوی کا تذکرہ کیا ہے اس نے اللہ تعالیٰ سے بیٹا مانگا تھا لیکن اللہ نے اس کو بیٹے سے بھی اچھی نیک اور بلند مرتبہ والی بیٹی عطا فرمائی وہ کہنے لگی


 اے میرے رب! یہ تو میں نے لڑکی جنی ہے


 تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا


 وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى [آل عمران : 36]


اور لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں


ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ


 (وَ لَيْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى:)


کے متعلق لکھتے ہیں


بظاہر تو کہنا چاہیے تھا کہ لڑکی لڑکے جیسی نہیں مگر الٹ فرمایا، یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ لڑکا جو عمران کی بیوی کے ذہن میں تھا اس لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا جو انھیں عطا کی گئی۔


اور وہ لڑکی واقعی کمال ثابت ہوئی بلکہ بہت سے مردوں سے مقام و مرتبہ میں بلند ہے


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :


[كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيْدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ ]


 [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی : « و ضرب اللہ مثلا…» : ۳۴۱۱، عن أبي موسیٰ رضی اللہ عنہ ]


 ’’مردوں میں سے بہت سے کامل ہوئے ہیں، مگر عورتوں میں فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم کے سوا کوئی کامل نہیں ہوئی اور عائشہ کی عورتوں پر برتری ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی برتری تمام کھانوں پر۔‘‘


 ایسی کمال کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران کا بیان فرمایا ہے کہ دونوں اعلیٰ درجے کے ایمان والی تھیں۔


فرمایا


وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ [التحريم : 11]


اور اللہ نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی، جب اس نے کہا اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔


وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ [التحريم : 12]


اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی ایک روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی۔


کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ بیٹی کی وجہ سے بیٹے سے بھی اچھا داماد مل جاتا ہے


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات یعنی امھات المؤمنین کی مثال ہمارے سامنے ہے


امھات المؤمنین کے وہ والدین اور بہن بھائی جو مسلمان تھے وہ کتنے خوش نصیب ہیں جن کے گھروں میں ایسی بیٹیوں اور بہنوں نے جنم لیا کہ جو بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر امھات المؤمنین کے لقب سے سرفراز ہوئیں


اور ایسا مقام ملا کہ کائنات میں ممتاز ہو گئیں


اللہ تعالیٰ نے فرمایا


يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا [الأحزاب : 32]


اے نبی کی بیویو! تم عورتوں میں سے کسی ایک جیسی نہیں ہو، اگر تقویٰ اختیار کرو تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو۔


ابو بکر صدیق، عمر فاروق، ابوسفیان اور ان کی بیوی ھند رضی اللہ عنہم اجمعین کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جن کے گھروں میں ایسی بیٹیوں نے جنم لیا کہ انہیں ان بیٹیوں کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم داماد ملا کہ جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے


اور


عبدالرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن عمر اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو ان بہنوں کی وجہ سے خال المؤمنین کہلائے

ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے شیطان نے اس کو بہکایا چناں چہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اب بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور ؟


رات کو سویا تو اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا اسے معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔


اللھم ارزقنا السابعۃ

اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔


اللہ رب العزت تمام بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے💝

 آمین یارب العالمین


Share:

چالیس سال کی عمر اور پڑھنے کے لئے قرآنی دعا

چالیس سال یا اس سے زیادہ عمر والے متوجہ ھوں 


وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً.

’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے۔‘‘

الأحقاف، 46: 15

قرآنِ مجید نے 40 سال کی عمر کو پختگی کی عمر قرار دیا ہے۔ عام فہم بات ہے کہ انسان کی بلوغت کے بعد اس کے شباب کا آغاز ہو جاتا ہے، 40 سال کی عمر میں شباب یعنی جوانی سے بڑھاپے کی طرف سفر شروع ھو جاتا  ہے۔ یعنی بلوغت سے لیکر 40 سال تک کی عمر جوانی کی عمر ہی کہلاتی ہے۔ 

امام فخرالدین رازی رحمة اللہ علیہ نے مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے:

اخْتَلَفَ الْمُفَسِّرُونَ فِي تَفْسِيرِ الْأَشُدِّ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي رِوَايَةِ عَطَاءٍ يُرِيدُ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ سَنَةً وَالْأَكْثَرُونَ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّهُ ثَلَاثَةٌ وَثَلَاثُونَ سَنَةً، وَاحْتَجَّ الْفَرَّاءُ عَلَيْهِ بِأَنْ قَالَ إِنَّ الْأَرْبَعِينَ أَقْرَبُ فِي النَّسَقِ إِلَى ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ مِنْهَا إِلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ. وَقَالَ الزَّجَّاجُ الْأَوْلَى حَمْلُهُ عَلَى ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ سَنَةً لِأَنَّ هَذَا الْوَقْتَ الَّذِي يَكْمُلُ فِيهِ بَدَنُ الْإِنْسَانِ.

’’اس آیت میں اشد (پوری قوت کو پہنچا) کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُھما نے فرمایا کہ اس سے مراد اٹھارہ سال اور اکثر مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد تینتیس(33) سال ہے۔ فراء نے اس پر یہ دلیل قائم کی ہے اٹھارہ کی بہ نسبت تینتیس (33) سال، چالیس سال سے زیادہ قریب ہے۔ اور زجاج نے کہا کہ تینتیس (33) سال، اس لیے راجح ہیں کہ اس عمر میں انسان کے بدن کی قوت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔‘‘

(الرازي، التفسير الكبير)


مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کی عمر کہا جاسکتا ہے۔ انسان کی عمر مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ پیدائش سے بلوغت تک کا عرصہ بچپن کہلاتا ہے، پھر بلوغت سے اٹھارہ سال کی عمر کو نوجوانی اور اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑھاپے کے آثار  شروع ہو جاتے ھیں ۔جسے ھمارے ھاں اُترتی جوانی بھی کہا جاتا ھے 

رسول اللہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) فرماتے ہیں: جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے، جنون ،کوڑھ اور برص ۔  سن چالیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جسے قرآن پاک  نے ایک خاص دعا سے بھی نوازا ہے ، اس لئے چالیس سال کی عمر پہنچنے پر یا پہنچنے کے بعد اس دعا کا ضرور اھتمام کرنا چاھیے


چالیس سال کی عمر ہونے کے بعد پڑھنے کی دعا

رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْکُرَنِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ، اِنِّـیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِ نِّـیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۝

اے میرے ربّ، مجھے توفیق دے کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا ہے اس کا شکر ادا کرتا رہوں اور ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن کو تو پسند کرے اور میری خاطر میری اولاد کی اصلاح فرما، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمین میں سے ہوں۔   (الاحقاف ) 

یہ ایک معنی خیز دعا ہے جس میں ماضی کے لیے شکر اور آنے والے دنوں کے لیے دعا شامل ہے۔

سن چالیس میں انسان خود کو ایک  بڑے پہاڑ کی چوٹی پر محسوس کرتا ہے، وہ ڈھلانوں  پر نظر ڈالے تو اسے اپنے بچپن ، لڑکپن ،نوجوانی اور گزری ھوئی جوانی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور ان کی خوشبو اب بھی اس کے دل میں محسوس ہوتی ہے۔ اور جب وہ دوسری طرف دیکھتا ہے تو اسے اپنی زندگی کے باقی مراحل قریب قریب محسوس ہوتے ہیں۔ یہ انسان کی عمر کا وہ حصہ ھوتا  ہے جب انسان میں ھر عمر کے لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ھو جاتی  ہے۔ وہ جوانوں کی طرح سوچ سکتا ہے، بوڑھوں کے جذبات کو سمجھ سکتا ہے، اور بچوں کی طرح خوشیاں محسوس کر سکتا ہے۔

عموماً چالیس کی دہائی میں انسان اپنے بالوں میں سفید لکیریں دیکھنے لگتا ہے، اور بعض لوگوں کی آنکھوں کی روشنی بھی کم ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے عینک  بھی ایک ضرورت بن جاتی ہے۔ چالیس کی عمر کے بعد شاید  پہلی بار بازار یا عوامی جگہوں پر لوگ آپ کو "چاچا" یا "خالہ “کہہ کر بلانے لگتے ہیں، جو اکثر اوقات حیرت کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ ساٹھ  یا ستر سالہ افراد آپ کو جوان کہتے ہیں، تو آپ مزید حیران ہو جاتے ہیں۔

چالیس کی دھائی میں "زندگی کی درمیانی عمر کا بحران" شروع ہوتا ہے، جس میں آپ کے اندر سخت سوالات سر اٹھاتے ہیں ۔ یہ سوالات آپ خود سے پوچھ رھے ھوتے ھیں ۔ مثلاً  آپ نے اپنے کام میں کیا حاصل کیا؟  اپنی فیملی کے لیے کیا کیا؟  اپنی ماضی کی زندگی میں کیا حاصل کیا؟ اپنے رب کے ساتھ کتنا تعلق بنایا یعنی معرفت الہی کا سفر کہاں تک طے کیا اور معرفت اور  تعلق میں کیا حاصل کیا؟ اگر ابھی  تک بھی آپ نے اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کیا پھر کب کریں گے؟ اس عمر میں جاکر یہ سوالات دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں ۔ کیونکہ وقت کی رفتار بہت تیز ہے، اور بچپن میں ہم جیسے چالیس سال کی عمر والے افراد کی دنیاوی خواہشات پوری طرح سمجھتے تھے، آج ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک کرنے کو بہت کچھ باقی ہے۔

چالیس کی دہائی میں ہمیں اپنے ارد گرد موجود بہترین چیزوں کی حقیقی قدر سمجھ میں آنے لگتی ہے۔جب ھم اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کر رھے ھوتے ھیں تو ھمیں شدت سے اہنے والدین کا احساس ھونا شروع ھو جاتا ھے  ہم اپنے والدین کو دیکھتے ہیں، (اگر وہ زندہ ہوں، )تو ہمیں ان کی قدر و منزلت کا احساس ہوتا ہے اور یہ کہ ہمیں ان کی خدمت کرنی چاہیے۔ اس عمر میں ھمیں والدین کو کھونے کا دھڑکا سا بھی  لگا رھتا ھے اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں، جو اب بچپن سے لڑکپن اور نوجوانی میں داخل ھو رھے ھوتے ھیں  اور ہم ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے بھائیوں اور دوستوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کی موجودگی میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

چالیس کی دہائی میں انسان کا وہ وقت آتا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پہچانے اور ایک متوازن اور دانا شخصیت بنے۔ یہ عمر دراصل فصل کاٹنے کا وقت ہے، جس میں ہم اپنے ماضی کے اعمال کے نتائج دیکھنا شروع کرتے ہیں، لیکن ابھی بھی تبدیلی ممکن ہے۔

چالیس کی دھائی کے بارے میں بعض اکابرین کےبارے میں کتابوں میں لکھا ھے کہ وہ اس عمر میں بستر لپیٹ کر رکھ دیتے تھے کہ اب سونے کا زمانہ ختم ھو گیا ۔ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیئے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع و رغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیئے ۔

چالیس سال کا سفر طے کرنے والوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام  ۔  اللہ تعالی  آپ  سب جو چالیس سال کی عمر کو پہنچنے والے ھیں یا پہنچ گئے ھیں کے دلوں کو  اپنی معرفت ، قرآن و سنت کے علم  ، صراطِ مستقیم  اور دین سے روشن کرے اور آپ کے سینے کو بھرپور ایمانی قوت ، ہدایتِ کامل  اور یقینِ محکم  سے بھر دے۔

آمین یا رب العالمین


Share:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) كا مقصد



 مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) كا مقصد

كلمه طيبه " لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) كا مقصد يه هے كه همارے دل كا يقين درست هو جائے اور كلمه كے پہلے حصه (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) كا مقصد یقینوں کی تبدیلی ھے يعني يه بات دل ميں راسخ هوجائے كه جو كچهـ هوتا هے الله سے هوتا هے اور الله كے غير سے الله تعالى كي مرضي كے بغيركچهـ بهي نهيں هوتا اور مخلوق كے چاهنے سے كچهـ نهيں هوتا بلكه جو الله كي مرضي هو وهي هوكر رهتا هے ۔
كلمه كے دوسرے حصه مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) كا مقصد طریقوں کی تبدیلی ھے یعنی حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے نوراني طريقوں ميں 100% كاميابي اور غيروں كے طريقوں ميں سراسر ناكامي كا يقين همارے دلوں ميں آجائے۔  همارے دلوں كا يه يقين بن جائے كه همارى إس دنيا كي كاميابي - عالم برزخ كي كاميابي اور عالم آخرت كي كاميابي صرف اور صرف رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے نوراني طريقوں كے مطابق زندگى گزارنے ميں هے اور غيروں كے طريقے خواه وه آمريكا سے آئے هوں ، روس سے آئے هوں ، چين سے أئے هوں يا كهيں سے بهي آئے هوں ان ميں يقيني ناكامي هے رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ كے إيك إيك طريقه (سنت) ميں الله تعالى نے زبردست كاميابي ركهي هوئى هے جو بهي إن نوراني سنتوں كو اپنائے گا اسے دنيا ميں چين و سكون كي زندگي ملے گي اور مرنے كے بعد قبر - حشر اور ديگر مراحل سے بهي آساني كے ساتهـ گزر جائے گا اگر ہماری زندگی میں "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ "صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقے موجود ہوں دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی ہم دونوں جہاں میں کامیاب ہوجائیں گے. اور اگر ہماری زندگی میں " مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں ناكام ہوجائیں گے. صحابه كرام رضوان الله عليهم كي مقدس جماعت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ كي إيك إيك سنت پر جان قربان كردينے كے لئے هر وقت مستعد رهتي تهي أن كے نزديك رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ كي إيك إيك سنت ان كے جان - مال - اولاد اور هر چيز سے زياده قيمتي تهي۔ مرنے کے بعد قبر کے سوالوں میں تیسرا سوال اسی کے متعلق ھو گا

سوال : مَن نَّبِیُّکَ -  تیرا نبی کون ہے؟

جواب: حضرت محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) هو نبيی . 

حضرت محمد  (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  میرے نبی ھیں

                یا

سوال : مَا ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُم؟ 

یہ کون مَرد ہیں جو تم میں بھیجے گئے؟ 



(جواب : ھُوَ رَسُوْلُ اللہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ 

وہ تو رَسُوْلُ اللہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   ) ہیں۔


تو معلوم ھونا چاھیے کہ قبر کے تیسرے سوال کا جواب بھی ایمان ویقین کے متعلق ھی ھے  جس نے اس دنیا میں حضرت محمد  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے نوراني طريقوں ميں سو فیصد  كاميابي اور غيروں كے طريقوں ميں سراسر ناكامي كا يقين اپنے  دل  ميں جمایا ھو گا  اور انہی طریقوں کو پسند کیا ھو گا اور انہی  طریقوں کے مطابق زندگی گزاری ھو گی تو وہ اس سوال کا صحیح جواب دے سکے گا  اور جس نے اس سے ھٹ کر یقین رکھا ھو گا  اور غیروں کے طریقوں کو پسند کیا ھو گا اور زندگی غیروں کے طریقوں پر گزاری ھو گی وہ اس سوال کا جواب دینے پر قادر نہ ھو سکےگا  تو ھمیں یہ  مشق بھی اسی زندگی میں کرنی ھوگی کہ همارے دلوں كا يه يقين بن جائے كه همارى إس دنيا كي كاميابي - عالم برزخ كي كاميابي اور عالم آخرت كي كاميابي صرف اور صرف رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے نوراني طريقوں كے مطابق زندگى گزارنے ميں هے اور غيروں كے طريقے خواه وه  كهيں سے بهي آئے هوں ان ميں يقيني ناكامي هے  اور جس نے  ان نورانی طریقوں کو اپنا کر زندگی گزاری ھوگی تو  وہ آسانی سے اس سوال کا جواب دے پائے گا  ھمارے لئے یہ جاننا بہت ضروری ھے کہ رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے إيك إيك طريقه (سنت) ميں الله تعالى نے زبردست كاميابي ركهي هوئى هے جو بهي إن نوراني سنتوں كو اپنائے گا اسے دنيا ميں چين و سكون كي زندگي ملے گي اور مرنے كے بعد قبر - حشر اور ديگر مراحل سے بهي آساني كے ساتهـ گزر جائے گا اگر ہماری زندگی میں "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقے موجود ہوں اور بالفرض  دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی ہم دونوں جہانوں  میں کامیاب ہوجائیں گے. اور اگر  خدانخواستہ ہماری زندگی میں " مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ "  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں ناكام ہوجائیں گے.
صحابه كرام رضوان الله عليهم كي مقدس جماعت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كي إيك إيك سنت پر جان قربان كردينے كے لئے هر وقت مستعد رهتي تهي أن كے نزديك رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كي إيك إيك سنت ان كے جان - مال - اولاد اور هر چيز سے زياده قيمتي تهي المختصر یہ کہ ھمیں  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے طریقوں میں پوری پوری کامیابی  اور غیروں کے  طریقوں میں پوری پوری ناکامی کے اپنے دل کے یقین کو محنت کرکے بنانا ھوگا اور ان طریقوں کے مطابق ھی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی ھو گی یہی اُخروی زندگی کی کامیابی کی کنجی ھے ۔ اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔

Share:

لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ كا مقصد

كلمه  طیبہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ
(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  كے حواله سے هماری یہ  بھی ذمه داری هے كه هم يه بات سيكهنے اور سمجهنے كي كوشش كريں كه ھمیں جو یہ عظیم کلمہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) عطا فرمایا گیا ھے تو إس عظيم كلمه لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) كا مقصد كيا هے ؟ تاكه يه كلمه یعنی لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ( هماري زندگيوں ميں آ سكے۔ تو يه كلمه  لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ  (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) دو حصوں پر مشتمل هے

پهلا حصه    :  لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ
دوسرا حصه :  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)


لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ كا مقصد
 جیسا کہ إس كلمه كے ألفاظ سے صاف ظاهر هے كه إس كلمه كا تعلق دل كے إيمان ويقين سے هے - يه كلمه تمام مخلوق كي نفي كركے إيك الله كي دعوت ديتا هے يعي الله تعالى سے سب كچھ هونے اور الله تعالى كے غير سے الله تعالى كي مشيت كے بغير كچھ بهي نه هونے كا يقين همارے دلوں ميں آجائے يعني يه كه همارے دل كا يقين درست هوجائے حديث مباركه كا مفهوم هے كه تمهارے بدن ميں گوشت كا إيک لوتهڑا هے اگر وه صحيح رها تو تمام بدن صحيح رهے گا اور اگر وه خراب هوگيا تو تمام بدن خراب هو جائے گا گوشت كا وه لوتهڑا دل هے ۔ تو اگر دل كا يقين درست هو جائے تو پهر بدن كے أعمال بهي درست هوجائيں گے اور اگر دل كا يقين درست نه هوا تو پهرأعمال كا درست هونا بهي ناممكن هوگا
تو همارا دل كا يقين درست هوجائے يعني ھمارے دل میں يه پکا يقين هو جائے كه اگر تمام مخلوقات مل كر بھی هميں كوئى نفع دينا چاهے ليكن اگر الله تعالى نه چاهے تو وه إيسا كرنے كي قدرت نهيں ركهتي - إسي طرح اگر تمام مخلوقات هميں نقصان پهنچانے پر آكٹهي هوجائيں اور الله تعالى نه چاهے  تو وه نقصان نهيں پہنچا سكتيں تو یہی إس كلمه كا مقصد بھی هے كه هرقسم كي مخلوق كي نفي كركے صرف الله تعالى کی ذات پر يقين آجائے كه وهي همارا خالق هے ، وهي همارا مالك هے ، وهي همارا رازق هے ، وه سب كچھ كے بغير سب كچھ كرنے پر قادر هے اور مخلوق اس كي مرضي كے بغير كچھ بهي نهيں كرسكتي ۔ زندگي اور موت كا مالك وه تنها الله هے ۔ عزت اور ذلت صرف وهي ديتا هے ۔ نفع و نقصان اس كے هاتھ ميں هے ۔ وه جب چاهے عزت كے نقشوں ميں ذليل كردے اور ذلالت كے نقشوں ميں عزت دے دے ۔ وه چاهے تو نمرود كو تخت پر بٹها كر جوتے مروا دے اور وه چاهے تو حضرت إبراهيم عَلَیْہِ السَّلَام كے لئے آگ كو گلزار بنا دے
وه جب چاهے تو دريا ميں سے حضرت موسى عَلَیْہِ السَّلَام  اور ان كي قوم كو راسته بنا دے اور وه جب چاهے تو اسي دريا ميں فرعون اوراس كي فوج كو غرق كر دے ۔ وه جب چاهے لاٹهي كو سانپ بنا دے اور جب چاهے سانپ كو لاٹهي بنا دے ۔ يه سب كچهـ الله كے هاتهـ ميں هے ۔ مختصراً يه كه الله تعالى جو چاهے جب چاهے جيسے چاهے كرنے پر قدرت ركهتا هے ۔ كوئى بهي دوسرا اس كي قدرت ميں شريك نهيں وہ * كن* كهتا هے تو *فيكون* هوجاتا هے كائنات كا سارا نظام صرف إيك الله كے هاتهـ ميں هے
الله تعالى صمد هے ۔ صمد أس ذات كو كهتے هيں جو كسي بهي كام كے لئے كسي كا محتاج نه هو اور باقي تمام هر كام ميں اس كے محتاج هوں ۔ مخلوق كا مطلب يه هے كه وه هر كام ميں اپنے خالق و مالك ( يعني الله تعالى ) كي محتاج هے۔ المختصر يه كه يه كلمه هميں دل كے يقين كو درست كرنے كي دعوت ديتا هے اور مخلوق كے آستانوں سے هٹا كر إيك خالق كے سامنے سجده ريز هونے كي تعليم ديتا هے ۔ تو إس كلمه كا مقصد يه هے كه همارے دلوں كا يقين درست هو جائے اور يه بات دل ميں پكي هوجائے كه جو كچھ هوتا هے الله سے هوتا هے اور الله كے غير سے الله كي مرضي كے بغير كچھ بهي نهيں هوتا ۔ مخلوق كے چاهنے سے كچھ نهيں هوتا بلكه جو الله كي مرضي هو وهي هر صورت هوكر رهتا هے ذرا غور كريں كه
حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام جنت ميں رهنا چاهتے تهے ليكن الله تعالى ان كو زمين پر بيجهنا چاهتے تهے ۔ آخر وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے -
حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام  چاهتے تهے كه أن كا بيٹا مسلمان هوجائے ليكن چونكه الله تعالى كي مرضي يه نهيں تهي ۔ إس لئےالله نے جو چاها وهي هوا .
حضرت إبراهيم عَلَیْہِ السَّلَام كي خواهش تهي كه ان كے والد إيمان والے بن جائيں ۔ الله تعالى كي مشيت كچھ اور تهي اور پهر وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے .
حضرت موسى عَلَیْہِ السَّلَام نے قبطي كو مُکہ مارا تها ليكن وه يه نهيں چاهتے تهے كه اس مُکہ سے قبطي مرجائے ۔ چونكه الله تعالى كي مشيت قبطي كي موت هي تهي إس لئے وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے .
رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كي شديد خواهش تهي كه ان كے چچا ابوطالب مسلمان هوجائيں۔  ليكن الله تعالى يه نهيں چاهتے تهے سو وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے۔ 
خلاصہ يه كه مخلوق جو مرضي چاهت ركهے وه پورى هونا ضروري نهيں اور الله تعالى جو چاهيں وه هر صورت ميں پورا هوگا ۔ إسي طرح يه جو تمام چيزوں ميں صلاحيت موجود هے وه بهي الله تعالى كے حكم اور چاهت سے هے ۔ الله تعالى جب چاهيں وه صلاحيت ان سے واپس لے ليں ۔ انهيں كوئى روكنے والا نهيں مثلاً : الله تعالى نے آگ كو پيدا فرمايا اور آگ كو جلانے كي صلاحيت عطا فرمائى  اور آگ اللہ تعالی کی دی ھوئی صلاحیت سے ھی جلانے پر قادر ھے ۔ اللہ تعالی جب  چاھیں آگ سے یہ صلاحیت واپس لے سکتے ھیں ۔ ھمارے سامنے حضرت ابراھیم عَلَیْہِ السَّلَام کی مثال موجود ھے کہ نمرود نے بهت بڑى آگ جلا كر حضرت إبراهيم  عَلَیْہِ السَّلَام  كو أس ميں ڈالا تھا ليكن الله تبارک تعالى نے أس وقت اس آگ سے جلانے كي خاصيت ختم فرما دی تھی اور گلزار هونے كى صلاحيت عطا فرمادي تھی ۔  إسي طرح چُھری كا كام كاٹ دينا هے اور یہ صلاحیت اسے اللہ پاک نے عطا فرمائی ھوئی ھے ليكن حضرت إبراهيم  عَلَیْہِ السَّلَام حضرت إسماعيل عَلَیْہِ السَّلَام كي گردن بر چُھری چلا رهے تھے لیکن چھری کاٹ نہیں رھی تھی  کیونکہ  الله تعالى نے اس وقت چُھری سے وه صلاحيت هي ختم فرمادي تھی اور چُھری حضرت إسماعيل عَلَیْہِ السَّلَام  كو ذرا بهي نقصان نه پہنچا سكي ۔ حضرت اسمائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو خراش تک بھی نہ آئی تھی ۔ الغرض جتني بهي آشياء دنيا میں هيں اور  ان ميں جو صلاحيتيں موجود هيں وه اسي وقت كام آئيں گى جب الله تعالى چاهيں گے۔ 
آج كے دور ميں إيٹم بم كو إيك بهت هي تباه كن هتهيار مانا جاتا هے ليكن مسلمان كا يه يقين هونا ضرورى هے كه يه هتهيار بهي اسي وقت تباهي لا سكتا هے جب الله تعالى كي مشيت هو ۔ ورنه تمام دنيا ميں موجود تمام هتهيار بشمول إیٹم بمز بهي اگر چلا ديے جائيں اور الله تعالى كسي كو تباه نه كرنا چاهيں تو يه تمام هتهيار بشمول إیٹم بمز بهي كچهـ نهيں كرسكتے .
زمانه قديم سے حضرت إنسان جادو كے نقصانات سے خوفزده هے ۔ باوجود إس كے كه جادو إيك حقيقت هے ليكن يه جادو بهي كسي كو أس وقت تک نقصان نهيں پہنچا سكتا جب تك الله تعالى نه چاهيں۔  جيسا كه قرآن مجيد ميں بهت واضح الفاظ ميں إسكو بيان فرما ديا گيا 


وَمَا هُـمْ بِضَآرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّـٰهِ
 اور حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے،


اسی  طرح هر هر إنسان كے جسم ميں بهي الله تعالی كا حكم موجود هے جسے روح كهتے هيں ۔ جب تك يه روح (حكم ربي) إنسان ميں موجود رهتا هے يه إنسان حركت كرتا رهتا هے ۔ ليكن جب الله تعالى كا حكم یعنی روح کو  إنسان ميں سے نكال ليا جاتا هے تو باوجود تمام جسم كے موجود هونے كے يه ذرا بهي حركت كرنے پر قدرت نهيں ركهتا ۔ إسي طرح إنسان كے ھر ھر أعضاء ميں ھر وقت الله تعالى كا حكم رهتا هے ۔ الله تعالى جب تك چاهتے هيں انسان کے وه أعضاء صحيح كام كرتے رھتے هيں ۔  ليكن جب الله پاک نهيں چاهتے تو وه كام كرنے سے عاجز هو جاتے هيں ۔ مثلاً كسي كو فالج هوگيا اب بازو كام نهيں كررها يا ٹانگ يا جسم كا كوئى متاثره حصه کام کرنے سے قاصر ھے ۔ تو يه درآصل الله تعالى كا حكم جو اس عضو کے حركت كرنے كا تها وه ختم هوگيا ۔ إسي طرح يه جو هم سانس ليتے هيں يه بهي الله تعالى كے حكم سے هے الله تعالى جب چاهيں اپنے إس حكم كو نكال ليں - إسي طرح يه كائنات كا سارا نظام صرف اور صرف الله تعالى كي چاهت سے چل رها هے- آسمان - زمين - سورج - چاند - ستارے اور كائنات كا ذرا ذرا اپنے چلنے ميں الله تعالى كا محتاج هے۔ 
صحابه كرام رضوان الله عليهم نے اپنا يقين بهت مضبوط بنايا تها يهي وجه هے دنيا كي كوئى بهي چيز ان كے راسته كي ركاوٹ نه بن سكي اگر دريا سے راسته چاها تو راستہ مل گيا ۔ اگر جنگل سے خونخوار جانوروں كو نكالنا چاها تو صرف إيك إعلان كرنے سے جنگل خالى هوگيا ۔ الله تعالى كا غيبي نظام  صحابہ کرام  كے ساتھ تها كيونكه وه الله تعالى پر كامل يقين ركهتے تهے۔  آج كا مسلمان بهي اگر اپنے دل میں یہ يقين پیدا كرلے تو الله تعالى كي وعدے آج بهي وهي هيں۔  آج بهي الله تعالى كا غيبي نظام مسلمان كي مدد كرسكتا هے اس کے کئے شرط  وھی ھے کہ مسلمان الله كا بن كر رهے اور الله تعالى کی قدرتوں اور وعدوں اور وعيدوں پر يقين ركهنے والا بن جائے ۔
إيك هي بات بار بار دهرائی جاتی هے كه هم اپنے دلوں كا يقين درست كرليں ۔ مخلوق سے يقين هٹا كر الله تعالى پر مكمل يقين كرليں تو هم دنيا وآخرت ميں كامياب هوجائيں گے ۔ إس كے برعكس اگر يقيں غير الله پر ھی رها تو دنيا ميں بهي ذليل خوار هوں گے اور آخرت ميں بهي ناكامي كا سامنا كرنا پڑے گا ۔ 
بقول شاعر:
نه خدا هي ملا - نه راه صنم
نه إدهر كے رهے نه أدهر كے

آخرت كي منزلوں ميں پہلی منزل قبر هے ۔ قبر كے بارے ميں ارشادِ نبوي  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   هے كه قبر يا تو جنت كا إيك ٹكڑا هے يا جهنم كا إيك گڑها - يه بهي حقيقت هے جو قبر كے إمتحان ميں كامياب هوگيا وه إن شاء الله باقي منزلوں ميں بهي كامياب هوتا چلا جائے گا . قبر ميں منكر ونكير كے سوالات كا سامنا هر شخص كو كرنا هے ۔ منکر و نکیر كے سوالات ميں پہلا سوال إسي يقين كے بارے ميں هوگا۔ 
سوال: من ربك - تيرا رب كون هے؟ 
جواب: ربي الله - ميرا رب الله هے
تو جس شخص نے اپنے دل میں إيك الله كا يقين إس دنيا ميں جمايا هوگا تو وه فوراً جواب دے گا " ربي الله " يعني ميرا رب إيك الله هے ۔ جس شخص كا يقين الله كي بجائے دكان پر هوگا يا كاروبار پر هوگا يا ملازمت يا زمينداري پر هوگا يا سياست پر هوگا يا وزارت پر هوگا يا صدارت پر هوگا تو يه شخص "من ربك" كا جواب "ربي الله " دينے پر قادر نهيں هوگا ۔ وهاں پر تو صرف اسي بات كو هي قبول كيا جائے گا جس كا يقين وه لے كر آيا هے ۔ تو إس كلمه كا صحيح يقين لے كر إس دنيا سے جانا هميشه هميشه كي كاميابي كي دليل هے جيسا كه قرآن مجيد ميں الله تعالى كا فرمان هے

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ O
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآَخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ *
نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ O
بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہو اور اس جنّت سے مسرور ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے
ہم دنيا كي زندگانی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں یہاں جنّت میں تمہارے لئے وہ تمام چیزیں فراہم ہیں جن کے لئے تمہارا دل چاہتا ہے اور جنہیں تم طلب کرو گے
یہ بہت زیادہ بخشنے والے مہربان پروردگار کی طرف سے تمہاری ضیافت کا سامان ہے

ايك دوسرے مقام پر ارشاد خداوندي هے
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 0
بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے تو انهيں (قيامت كے دن) نه كوئي خوف هوگا اور نه هي وه غمگين هوں گے

عالمِ برزخ  اور عالم آخرت میں کامیاب ھونے کے لئے ھمارے لئے یہ بہت ضروری ھے کہ ھم ایک اللہ کا یقین لے کر اس دنیا سے جائیں کہ
“ جو کچھ ھوتا ھے اللہ سے ھوتا ھے اور اللہ کے غیر سے اللہ کی مشیّت کے بغیر کچھ نہیں ھوتا “ 

Share:

کلمۂ طیبہ کو کیسے سیکھیں


لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه وه مبارك اور قيمتي كلمه هے كه جس پر تمام تر كاميابيوں كا دارومدار هے جو شخص يه كلمه لے كر إس دنيا سے جائے گا اگر خدانخواسته اپنے گناهوں  کی وجہ سے جہنم میں چلا بهي گيا تو پھر بھی اس كلمه كي بركت سے ايك نه ايك دن ضرور جہنم سے نکال لیا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ اور اگر کوئی خدانخواسته إس كلمه سے محروم هو کر إس دنيا سے چلا گيا تو وه كهبي بهي جنت ميں نهيں جائے گا  بلکہ ھمیشہ ھمیشہ جہنم میں ھی رھے گا گو اس نے دنیاوی زندگی میں کتنے ھی رفاھی اور آچھے کام کیے ھوں گے ۔  اب سوال يه هے كه نجات کا دارومدار تو اسی کلمہ پر ھے تو هم إس كلمه كے بارے ميں كس طرح كي كوشش كريں كه الله تعالى هميں اُخروی زندگی میں كامياب فرما دے ۔ إس كلمه كے حواله سے جو سب سے پہلا كام جس كي كوشش هماری  ذمه داری  هے وه إس كلمه كے الفاظ كو صحيح طريقه سے ادا كرنا سیکھنا هے - زير - زبر - پیش كا خيال ركهنا اور حروف كي آدائیگی مخارج کا خیال رکھتے ھوئے صحيح طرح سے كرنا -  بدقسمتی سے آج كل دين سے دورى كي يه حالت هے كه بہت سے لوگ  اس كلمه کے صحیح الفاظ بهي ادا نہیں کر سکتے ۔ كهيں زير كي غلطي كهيں زبر اور پيش كي غلطي ۔ تلفظ كي غلطي كى تو إنتها يه هے كه بهت سے لوگ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  كو بهي (مهمد) ادا كرتے هيں جو بالكل درست نهيں هے تو سب سے پہلے تو هميں کچھ وقت نکال کر كسي أستاد كے پاس جا كر إس كلمه كو صحيح طريقه سے ادا کرنا سيكهنا چاهيے تاكه هم إس عظيم كلمه كے الفاظ كو صحيح طور پر پڑهنے والے بن جائيں۔  یاد رکھیں کہ سیکھنے کے لئے کسی عمر کی قید نہیں بلکہ عمر کے کسی بھی حصہ میں سیکھ سکتے ھیں  چنانچہ مولانا الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک بوڑھے میواتی کو جس کی عمر پچاسی سال تھی ، جماعت میں جانے کی دعوت  دی ۔ اُس بوڑھے میواتی نے جواب دیا کہ مولانا ! میں جماعت میں جا کر کیا کروں گا کیونکہ میری عمر پچاسی سال ھو گئی ھے لیکن ابھی تک مجھے کلمہ نہیں آتا تو مولانا نے فرمایا کہ آپ جماعت میں جائیں اور لوگوں کو یہی بتائیں کہ لوگو! دیکھو میری اتنی عمر ھو گئی ھے لیکن چونکہ میں نے کلمہ نہیں سیکھا اس لئے مجھے کلمہ نہیں آیا اس لئے تم ضرور کسی کے پاس جا کر یہ کلمہ سیکھ لو 

إس كلمه كے حواله سے ھماری دوسری ذمہ داری یہ ھے كه هم اپنی زبان میں إس کلمہ كے ترجمه كو سيكهيں كيونكه يه كلمه عربي زبان ميں هے اور ھم عربی سمجھ نہیں سکتے ۔ إس لئے جب تك هم اپني زيان ميں إس كا ترجمه نهيں سيكهيں گے تب تک اس كلمه كو سمجهنا ھمارے لئے ممكن نهيں هوگا إس مبارک كلمه كا اردو ترجمه يه ھے
" الله كے سوا كوئى عبادت كے لائق نهيں اور (حضرت) محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ) الله كے رسول هيں "
اس کے بعد ھمیں کسی عالم کے پاس جا کر اس پاک کلمہ کی تشریح ، مقصد اور فضائل وغیرہ بھی سیکھنے کی پوری کوشش کرنی چاھیے تاکہ اُخروی زندگی میں ھم سرخرو ھوجائیں ۔ 
Share:

کلمۂ طیبہ کے فضائل


 لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کے فضائل
  
كلمه  طیبہ یعنی  لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  كے حواله سے ھمارے ذمہ بہت هي إهم كام يه هے كه هم إس كے فضائل كو سيكهيں تاكه همارے اندر فضائل سن كر يا پڑھ كر إسے صحيح معنوں ميں اپنانے كا ذوق وشوق پيدا هوجائے۔  جتنے فضائل ھم سیکھتے جائیں گے اتنا ھی کلمۂ طیبہ کو اپنی زندگیوں  میں لانے کا جذبہ ھمارے اندر زیادہ ھوتا جائے گا ، اس لئے ھم کلمہ کے زیادہ سے زیادہ فضائل پڑھنے ، سننے اور سیکھنے کی کوشش کریں ۔
كلمه طييه كے فضائل قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ ميں إس كثرت سے وارد هوئے هيں كه إس کو لکھنے كے لئے چند صفہات نہیں بلکہ إيك ضخيم كتاب كي ضرورت هے ۔ علماء كرام نے إس موضوع پر بہت سي كتابيں تصنيف فرمائي هيں ۔ ھمیں ایسی کتابیں اپنے مطالعہ میں ضرور رکھنی چاھیں ۔ ان کتابوں كا مطالعه ھمارے لئے يقيناً بهت فائده مند هو گا - يہاں پر کلمۂ طیبہ کے صرف چند فضائل كا ذكر كرنے پر هي  إكتفا كيا جائے گا تاکہ ایک نمونہ سامنے آسکے ۔ 

(أ) حضرت انس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ آگ سے ہر وہ شخص نکالا جائے گا جس نے   لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) کہا ہو اور اس کے دل میں ’جو‘ کے برابر بھی کوئی بھلائی ہو۔اور آگ سے ہر وہ شخص نکالا جائے گا جس نے لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کہا ہو اور اس کے دل میں ایک گہیوں کے دانے کے برابر بھی کوئی خیر ہو۔اور آگ سے نکالا جائے گا ہر وہ شخص بھی جس نے لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  کہا ہو اور اس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی خیر ہو۔‘‘ ۔۔۔(بخاری)
تشریح: اگر کوئی شخص ایمان کا ذرا سا حصہ بھی لے کر اس دنیا سے گیا ھو گا تو وہ اس کی برکت سے جہنم سے کسی نہ کسی وقت نکالا جائے گا،ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  پڑھا وہ ا س کو کسی نہ کسی دن ضرور نفع دے گا گو اس کو اپنے بد اعمال کی وجہ سے کچھ نہ کچھ سزا بهگتنا پڑے۔(فضائل ذکر) 

(ب) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے أرشاد فرمایا: كه إيك مرتبه موسی عَلَیْہِ السَّلَام  نے عرض کیا: اے رب! مجھے ایسی چیز سکھا جس کے ساتھ میں تیرا ذکر کروں اور تیرے قریب تر ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: موسیٰ! ( لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ   ) کہا كرو، موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: اے میرے رب! یہ کلمہ تو تیرے تمام بندے کہتے ہیں۔ اللہ تعالى نے فرمایا: موسیٰ! اگر سات آسمان اور میرے سوا ان کے رہائشی اور ساتوں زمینیں اور جو كچهـ أس ميں هے ایک پلڑے میں ہو ں اور ( لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ) ایک پلڑے میں ہو تو (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ  ) والا پلڑا جھک جائے گا۔ 
( الحاکم  وابن حبان )

(ج) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ --صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ " مَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ  دخل الجنہ" .
حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روايت كرتے هيں كه رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمايا كه جس كا آخرى كلام لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ هوگا وه جنت مين داخل هوگا 
( صحيح البخاري )

(د) عن أَبَي سَعِيدٍ الْخُدْرِىَّ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ- « لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ».
حضرت أَبَي سَعِيدٍ الْخُدْرِىَّ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روايت كرتے هيں كه رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمايا كه كه اپنے مرنے والوں كو" لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ " كى تلقين کیا كرو 
(صحيح مسلم )

(هـ ) إيك حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: افضل ذکر (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) ہے اور افضل دعا “الحمدللہ” ہے۔(جامع الترمذی)
ایک دوسری حدیث میں ہے : بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے اور بہترین بات جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبيوں نے کہی وہ "لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ " ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
 (جامع الترمذی)

(و) إيك اور حدیث جس کا تعلق قیامت کے دن حساب کتاب سے ہے اس سے بھی اس کلمہ طیبہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: “قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے ایک امتی کو برسرخلائق نجات عطا فرمائے گا۔اللہ ننانوے رجسٹر کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا ہر رجسٹر کا طول و عرض حد نگاہ تک ہو گا۔پھر اللہ تعالیٰ کہے گا!کیا تو اس میں درج باتوں میں سے کسی کا انکار کرتا ہے ؟یا تیرے خیال میں میرے لکھنے والے محافظین نے تجھ پر ظلم کیا ہے ؟وہ امتی کہے گا!نہیں، اے میرے رب! اللہ فرمائے گا :کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے ؟وہ کہے گا:نہیں، اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا :کیوں نہیں، ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے بلاشبہ آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر یہ درج ہو گا۔میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ کہے گا:دونوں کا وزن کیا جانا ہے ، تو دیکھ! امتی کہے گا: اے میرے رب! اس ٹکڑے کی ان رجسٹروں کے سامنے کیا حیثیت ہے ؟ اللہ فرمائے گا!تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔پس سارے رجسٹر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے اور کلمہ شہادت والا کاغذ کا ٹکڑا دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔لیکن قطعہ کاغذ والا پلڑا بھاری اور تمام رجسٹروں والا پلڑا ہلکا ہو جائے گا۔(اس لیے کہ )اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی۔(ترمذی)

(ز) ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام  نے اپنے بیٹے کو دو باتوں کی وصیت فرمائی، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں تجھے (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) کا حکم دیتا ہوں۔پھر اس کی درج ذیل فضیلت بیان فرمائی: “ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اگر ایک پلڑے میں اور (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) دوسرے پلڑے میں رکھا جائے ، تو یہ دوسرا پلڑا اس کلمے کی وجہ سے بھاری ہو جائے گا اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک بند حلقہ ہوں تو (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) ان کو توڑ دے گا۔(مسند احمد)

 (ح) حضرت عِتبان بن مالک انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کہتے ہیں کہ : جناب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میرے یہاں صبح  تشریف لائے اور فرمایا :  جو شخص قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کو اس طرح سے کہتا ہوا آئے کہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مندی چاہتا ہو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو ضرور حرام فرمادیں گے" ۔(بخاری)

(ط) حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا:اے اللہ تعالی کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ! قیامت کے روز آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون  خوش نصیب ہو گا؟  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا : ابوہریرہ!حدیث پر تمہارا حرص دیکھ کر میرا گمان یہی تھا کہ اس بارے میں تم سے پہلے مجھ سے کوئی نہ پوچھے گا۔  قیامت کے دن میری شفاعت  کا زیادہ مستحق وہ خوش نصیب ہوگا  جس نے دل کے  اخلاص کے سا تھ’’ لا إله إلا الله‘‘ کہا ہو"۔(بخاری)

( ی ) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا کہ: اپنے ایمان کی تجدید کیا کرو، پوچھا گیا کہ: اے اللہ تعالی کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ!ہم اپنے ایمان کی تجدیدکیسے کریں؟ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نےفرمایا کہ کثرت سے’’ لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھا کرو"۔( آحمد و۔  طبرانی)

 ( ک) حضرت زید بن خالد جہنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ مجھے جناب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بھیجا کہ لوگوں کو خوشخبری سناؤ کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ وحدہ لا شریک ہے تو اس کے لئے جنت ہے"۔( طبرانی)

  (ل)  حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ: جس نے (لا الہ الا اللہ) کہا ، تو یہ (کلمہ) اس کو  ایک نہ ایک دن (ضرور) نفع پہنچائے گا اگر چہ عذاب سہنے کے بعد ہو"۔( طبرانی و مجمع الزوائد)

 (م)  حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :۔۔اللہ تعالیٰ(فرشتوں سے) فرمائے گا: تم ہراس شخص کو آگ سے نکالو جس نے (لا الہ الا اللہ) کہا ہو اور اس کے دل میں ذرّہ  برابر بھلائی ہو، اس کو (بھی) آگ سے نکالو جس نے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہا ہو، اس کے دل میں جَو کے دانے کے برابر خیر ہو، اس کو (بھی)  آگ سے نکالو جس نے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہا  ہو، اس کے دل میں  گندم کے دانے کےبرابر بھی بھلائی ہو ‘‘۔(آحمد) 

 (ن) حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جس شخص کو موت آئے اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمادیتا ہے"۔( ابن ماجہ)

 (س) حضرت طلحہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی بیوی حضرت سُعدیٰمُـرِّیّه رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  کہتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی وفات کے بعد حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس  سے گزرے، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم کو رنجیدہ پاتا ہوں۔۔؟  حضرت طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے کہا:۔۔ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر کوئی اسے موت کے وقت کہے گا تو وہ اس کے نامہ اعمال کا نور ہو گا، اور موت کے وقت اس کے بدن اور روح دونوں اس سے راحت پائیں گے"، لیکن میں یہ کلمہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے دریافت نہ کر سکا یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی وفات ہو گئی، حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں اس کلمہ کو جانتا ہوں، یہ وہی کلمہ ہے جو رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے چچا (ابوطالب سے وفات کے وقت)  پڑھنے کے لیے کہا تھا، اور اگر رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اس سےزیادہ باعث نجات کسی کلمہ کا علم ہوتا تو وہی پڑھنے کے لیے فرماتے"۔( ابن ماجہ)

اللہ پاک ھمیں کلمۂ طیبہ کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور موت کے وقت یہ کلمہ ھمیں پڑھنا نصیب فرمائے 
آمین یا رب العالمین


Share: