مسلمان ہار گئے لیکن اسلام جیت گیا

حضرت مولانا  مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ ھندوستان  میں ایک بہت  بڑے عالم اور بزرگ  گزرے ھیں ۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا  ذکریا رحمة اللہ علیہ کے خاندان میں سے تھے اور  حضرت شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے ۔  اللہ تعالی نے انہیں علم و عمل کی دولت فراونی سے عطا فرمائی ھوئی تھی ۔ اس دولت کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے اُنہیں  سچی زندگی بھی عطا فرمائی تھی ۔ وہ صحیح معنوں میں صداقت کا پیکر تھے۔  مشکل سے مشکل حالات  میں بھی اُن کا دامن جھوٹ سے کھبی آلودہ نہ ھوا۔  اُن کی سچائی کا ایک حیران کن واقعہ ملاحظہ فرمائیں 

انگریز حکومت کا دور تھا  کہ ھندوؤں  اور مسلمانوں میں ایک جھگڑا پیدا ھو گیا اور دیکھتے ھی دیکھتے یہ جھگڑا کافی شدت اختیار کر گیا ۔ جھگڑا کاندھلہ میں ایک زمین کے ٹکڑے پر تھا۔ مسلمان کہتے تھے کہ یہ قطعۂ زمین ہمارا ہے اور ہندو کہتے تھے کہ یہ ہماری ملکیت  ہے ۔ چنانچہ انگریز کی  عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا ۔ مقدمہ انگریز کی عدالت میں پہنچا تو آنگریز جج نے مقدمہ کی کاروائی شروع کر دی اور  جب مقدمہ کی کاروائی آگے بڑھی تو مسلمانوں نے عدالت میں آ کراعلان کردیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا  اگر ھمیں مل گیا  تو ہم اس پر اللہ کا گھر ( مسجد) بنائیں گے ہندوؤں نے جب مسلمانوں سے یہ بات سنی تو انہوں نے بھی ضد اور جوش میں آ کر کہہ دیا کہ یہ ٹکڑا اگر ہمیں ملا تو ہم اس پر مندر بنائیں گے۔ 

جب یہ مقدمہ شروع ھوا تھا تو یہ انفرادی نوعیت کا ایک عام مقدمہ تھا لیکن فریقین کے مسجد اور مندر بنانے کے  اعلانات سے اس مقدمہ نے اجتماعی ، جذباتی اور  مذھبی شکل آختیار کر لی ۔  حتٰی کہ  ایک طرف مسلمان جمع ہوگئے اور دوسری طرف  ہندو اکٹھے ہوگئے اور یہ مقدمہ ایک خاص نوعیت کا بن گیا ۔ اب قریب تھا کہ کسی غلط فیصلے کے باعث سارے شہر میں ھندو مسلم فسادات پھیل جائیں اور قتل وغارت ہو جائے۔ خون خرابہ کا شدید خطرہ پیدا ھو گیا تھا ۔ بستی کے لوگ بھی بڑے حیران  و پریشان تھے کہ نہ جانے صورت حال کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ انگریز جج  بھی اپنی جگہ بہت پریشان تھا اور وہ چاھتا تھا کہ فریقین کے درمیان میں کوئی صلح وصفائی کا پہلو نکل آئے ورنہ ایسا نہ ہو کہ فساد کی یہ آگ اگر جل پڑی تو پھر اس کا بجھانا مشکل ہو جائے ۔ انگریز جج  نے بہت سوچ بچار کے بعد فریقین کو ایک تجویز پیش کی ۔ تجویز یہ تھی کہ کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ آپ لوگ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا کوئی حل نکال لیں ۔ ہندوؤں نے ایک تجویز پیش کی کہ ہم آپ کو ایک مسلمان عالم کا نام تنہائی میں بتائیں گے ۔ آپ اگلی پیشی پر ان کو بلا لیجیے گا  اور ان سے اس زمین کے متعلق پوچھ لیجئے گا  اگر وہ کہہ دیں  کہ یہ مسلمانوں کی زمین ہے تو آپ یہ زمین ان کو دے دیجئے اور اگر وہ یہ کہیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین نہیں ہندوؤں کی ہے تو ہمیں دے دیجئے۔  جب جج نے دونوں فریقوں  سے پوچھا تو دونوں فریق اسی پر راضی ہوگئے مسلمانوں کے دل میں یہ بات تھی کہ مسلمان جو بھی ہوا وہ مسجد بنانے کی ہی بات کرے گا ۔ چنانچہ انگریز جج نے مہینہ کے بعد  کی تاریخ دے دی کہ اس دن آنا اور میں اس بڈھے کو بھی بلوالوں گا ۔ اب جب مسلمان باہر نکلے تو بڑی خوشیاں منارہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔  باھر موجود ہندوؤں نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ تم نے عدالت میں یہ کیا کہہ دیا ، تم نے ایک مسلمان عالم کو حَکَم بنالیا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر جو کہے گا اسی پر فیصلہ ہوگا اب ہندوؤں کے دل مرجھا گئے اور مسلمان خوشیوں سے پھولے نہیں سماتے تھے ۔ لیکن اس انتظار میں تھے کہ دیکھیے اگلی پیشی میں کون مسلمان عالم  آتا ھے اور کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہندوؤں نے اس شرط پر مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کا نام  انگریز جج کو بتایا کہ  مقررہ  تاریخ تک اسے صیغہ راز میں رکھا جائے گا ۔ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے اور اللہ تعالی نے ان کو سچی زندگی عطا فرمائی ھوئی تھی ۔ عدالت نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو بھی سمن جاری کر دیئے کہ تاریخِ مقررہ پر عدالت میں آکر زمین کی ملکیت کے متعلق گواھی دیں ۔ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے جج کو جواب بجھوا دیا  کہ میں نے یہ قسم کھا رکھی ھے کہ میں کھبی بھی کسی بھی انگریز کی شکل نہیں دیکھوں گا ۔ لھذا میں اپنی قسم کی وجہ آپ کی عدالت میں حاضر ھونے سے قاصر ھوں ۔ انگریز جج نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ  کو دوبارہ پیغام  بجھوایا کہ آپ  براہ مہربانی تاریخ مقررہ پر عدالت آکر گواھی ضرور دیں کیونکہ آپ کے مذھب میں بھی فساد کو ختم کرنے اور دو فریقوں میں صلح کروانے کا حکم موجود ھے ۔ رھی بات آپ کی قسم کی تو آپ عدالت آکر میری طرف چہرے کا رخ کرکے کھڑے نہ ھونا بلکہ میری طرف پیٹھ کرکے کھڑے ھو جانا تاکہ آپ میری شکل نہ دیکھ سکیں۔ اس طرح آپ کی قسم بھی  نہیں ٹوٹے گی  اور میں اسے توھینِ عدالت بھی نہیں کہوں گا ۔ 

اب  مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو عدالت جانے ہر کوئی  اعتراض نہیں تھا چنانچہ  مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ مقررہ تاریخ  اور مقررہ وقت پر عدالت پہنچ گئے ۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ تشریف لائے ہیں تو وہ سوچنے لگے کہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ تو مسجد کی ھی بات کریں گے ۔ چنانچہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ عدالت میں انگریز جج کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ھو گے ۔ جب انگریز جج نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو پوچھا کہ مفتی صاحب ! آپ بتائیے کہ یہ زمین کا ٹکڑا کس کی ملکیت ہے؟ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو چونکہ حقیقت حال کا پتہ تھا انہوں نے جواب دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا تو ہندوؤں کی ملکیت ہے اب جب انہوں نے یہ کہا کہ جہاں تک میں جانتا ھوں یہ قطعہ زمین ہندوؤں کا ہے تو انگریز جج نے پھر اگلی بات یہ پوچھی کہ کیا اب ہندو لوگ اس کے اوپر اپنا  مندر تعمیر کرسکتے ہیں ۔  مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا جب ملکیت ان کی ہے تو وہ جو چاہیں کریں چاہے گھر بنائیں یا مندر بنائیں یہ ان کا اختیار ہے چنانچہ فیصلہ دے دیا گیا کہ یہ زمین ہندوؤں کی ہے مگر انگریز جج نے فیصلےکے اخیر میں ایک عجیب بات لکھی کہ:

*”آج اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا”*

جب انگریز جج  نے یہ بات کہی تو اس وقت ہندوؤں نے کہا کہ آپ نے تو فیصلہ دے دیا ، اب ہماری بات بھی سن لیجئے ہم اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں کیونکہ جس مذھب کے ماننے والے اتنے سچے ھیں  تو اُن کا نبی کتنا سچا ھو گا لھذا ھم آج یہ اعلان کرتے ہیں کہ ھم نے اسلام قبول کر لیا ھے اور اب ہم اپنے ہاتھوں سے یہاں مسجد بنائیں گے۔

اللہ اکبر کبیراً 

 مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ بیان دینے کے بعد جب عدالت سے باھر نکلنے  لگے  تو اُنہوں نے ایک نظر عدالت میں موجود مسلمانوں پر اس انداز سے ڈالی جیسے یہ  کہہ رھے ھوں کہ کیا تمہیں اللہ پر بھروسہ نہیں ھے ؟ ۔ 

 مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ جب عدالت سے باھر آئے تو باھر موجود مسلمانوں نے اُنہیں گھیر لیا اور استفسار کیا  کہ آپ نے مسجد کے خلاف اور ھندوؤں  کے حق میں بیان کیوں دیا تو مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میرے سامنے دو چیزیں تھیں ایک قطعۂ زمین جس پر مسجد بننی تھی اور دوسرا میرا دین جس پر میری غلط بیانی کی صورت میں کذب کا ایک بدنما دھبہ لگ جانا  تھا تو میں کسی بھی صورت میں اپنے دین پر دھبہ برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ چونکہ میرے علم میں تھا کہ یہ زمین ھندؤں کی ھے اس لئے میں نے سچائی کا دامن نہیں چھوڑا اور پھر اللہ پاک نے اس کا انعام بھی مسلمانوں کو نقد ھی عطا فرما دیا کہ نہ صرف زمین جائز طریقے سے مسجد کو مل گئی بلکہ مسجد کے بنانے والے بھی ساتھ ھی مل گئے ۔

ایک اللہ والے کی زبان سے نکلی ہوئی سچی بات کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ بہت سے ہندوؤں نے بھی اسلام قبول کیا اور بعد میں اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے مسجد بھی بنائی۔کسی نے کیا ہی اچھی بات کہی ھے۔ 

جو  بھی دل سے سچائی کے راستہ پر چلتا رہتا ہے

 وھی کامیاب  ہے جو سچ  کے ساتھ‌ کھڑا رھتا ھے 

Share:

امتحان میں اچھے نمبروں کے لیے وظیفہ

ھر طالب علم اپنے امتحان میں شاندار کامیابی کا خواھشمند ھوتا ھے اور اس کے لئے وہ اپنے دماغ اور سوچ کے مطابق زیادہ سے زیادہ تگ و دو بھی کرتا ھے ۔لائق طلباء تو پڑھائی میں خوب محنت کرتے ھیں . پوری پوری رات پڑھنے میں مصروف رھتے ھیں اور پھر آچھے نتائج  بھی حاصل کر لیتے ھیں اور نالائق طلباء بھی اپنے انداز سے تیاری میں خوب لگے ھوتے ھیں مثلاً بوٹی بنانے اور اس کے محفوظ استعمال  کے نئے نئے طریقوں پر سوچ بچار کر رھے ھوتے ھیں ۔

اسی طرح بعض طالبِ علم شاٹ کٹ کے چکر میں رھتے ھیں اور تیاری سے زیادہ  امتحان میں اچھے نمبروں سےکامیابی کے لیے کسی سریع الاثر وظیفہ کی  تگ و دو  میں رھتے ھیں اور بزرگوں کے پاس جا جا کر عرض کرتے ھیں کہ حضرت صاحب ! مجھے  کوئی ایسا وظیفہ بتا دیں کہ امتحانی سینٹر میں جو ممتحن آیا ہوا ہو ، میں بس اُس ممتحن پر دم کردوں اور  نگرانی کے لیے اُس کا دل میرے لیے نرم ہو جائے ،  اور نظر بندی کے لیے بھی کوئی ایسا وظیفہ بتا دیں  جو میں اپنا پیپر مکمل کرنے  کے بعد اُس پیپر پر دم کردوں تاکہ جب میرا پیپر چیک ہو تو میری  غلطیاں پیپر چیک کرنے والے کو نظر  ھی نہ آئیں، اور وہ میرے نمبرز زیادہ لگا دے وغیرہ وغیرہ 

اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا  کہ مسنون دعاؤں اور ثابت شدہ وظائف کی تاثیر اپنی جگہ بالکل مسلّم  ہے، لیکن اللہ تعالی نے اس دنیا کو دار الاسباب بنایا ھے ۔ شریعتِ اسلامیہ  نے دنیا میں ہمیں رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ اسباب اور تدابیر اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے، اسباب اختیار  کیے بغیر،  محنت سے غافل ہوکر ، محض دعاؤں اور وظائف پر اکتفا کرکے کامیابی کا تصور  منشاءِ شریعت اور نظامِ فطرت کے موافق نہیں ہے،  اگر وظائف پڑھ کر ہی کامیابیاں حاصل کی جاتیں تو انبیاءِ کرام علیہم السلام دین کے لیے اتنی محنت و مشقت  نہ کرتے، دنیا میں رہتے ہوئے انسان اپنی استطاعت کے مطابق محنت کرنے کا مکلف ہے، تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ھے کہ  صرف اپنی محنت پر ھی بھروسہ کرنا شرعاً غلط ہے، حتی الوسع محنت کے ساتھ ساتھ خوب دعاؤں کا اہتمام انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ پاؤ بھر محنت ہو تو من بھر دعائیں بھی ھونی چاھیں ۔  بہرحال اسباق کی تیاری کے بغیر، اور محنت سے غافل ہوکر محض وظیفے یا دعا کے زور پر کامیابی کا تصور منشاءِ شریعت کے خلاف اور کھلی ھوئی بے وقوفی ہے، 

امتحان میں ممتحن کو رشوت دے کر یا کسی سفارش کی بنا پر یا پھر اُسے دھوکہ دے کر نقل کرکے پیپر مکمل کرنا کئی بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے اس لئے اس سے مکمل طور ہر اجتناب برتنا چاھیے اور اگر ممتحن کسی بھی وجہ سے خود امتحان میں کسی بھی طریقہ سے نقل کرنے میں طالب علم سے  تعاون کرے گا  تو طالب علم کے ساتھ ممتحن خود بھی ایک بہت بڑی خیانت کا مرتکب ہوگا، اور قیامت والے دن ممتحن اور طالبِ علم دونوں  عنداللہ جوابدہ ھوں گے۔  اور پرچے میں تحریر کردہ  غلطیوں کو کسی طرح بھی  چھپانے کی سعی و فکر کرنا، قطعاً مثبت سوچ نہیں ہے، اور یہ حقیقت  ھے کہ ایسا کوئی بھی وظیفہ نہیں ہے کہ جس کے کرنے سے پرچے پر  لکھی ھوئی غلطیاں پیپر چیک کرنے والے کو نظر ھی نہ آئیں 

لہذا طالبِ علم کو چاھیے کہ اول ان سب بُرے خیالات اور خوش فہمیوں کو ذہن سے  نکال دیں، اور پڑھائی میں  خوب خوب دل لگا کر محنت کریں، اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے خوب  خوب دعا مانگیں،  دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ مؤثر اور طاقت ور نہیں ہے، تاھم اگر وظیفہ بھی ضرور ھی پڑھنا ھے تو لیجیے حکیم الاُمت حضرت مولانا آشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کا بتایا ھوا مختصر سا وظیفہ حاضر ھے ، یقین کے ساتھ بلا تردد اسے  پڑھ سکتے ھیں ۔ ان شاء اللہ ضرور فائدہ ھو گا لیکن ایک بات آچھی طرح یاد رکھیں کہ کسی بھی  وظیفہ کی کامیابی کے لئے کچھ شرائط ھوتی ھیں ۔ ان شرائط میں پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرنا ھر وظیفہ کی شرطِ اوّل  ھے ورنہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں ھو گا ۔   

وظیفہ مندرجہ زیل ھے : 

یانَاصِرُ

ہر نماز کے بعداکیس مرتبہ پڑھیں اول و آخر تین تین مرتبہ درود شریف 

یَا عَلِیمُ

روزانہ فجر کی نمازکے بعد’’ 150مرتبہ پڑھیں اول و آخر تین تین مرتبہ درود شریف  اورامتحان کے روز اس کی کثرت کریں۔(ملفوظات اشرفیہ)

Share:

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ایک بڑھیا کی گٹھڑی اُٹھانے کا من گھڑت واقعہ

  بعض واعظین، نعت خوان  اور خطباء  اپنے بیانات میں ایک خود ساختہ واقعہ لوگوں کو بہت جوش و خروش سے کچھ اس طرح سناتے ھیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک غیر مسلم بڑھیا رھتی تھی،  جس نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی دعوت اسلام سے تنگ آکر مکہ مکرمہ سے نکل کر کہیں اور جانے کا فیصلہ کیا ، چنانچہ وہ اپنے سامان کی گٹھڑی سر پہ رکھے ،لاٹھی ٹیکتی راستے پر کسی مددگار کے انتظار میں کھڑی ہوگئی، تھوڑی دیر میں ایک خوبصورت جوان وھاں آتا ھے اور اس پڑھیا کو پوچھتا ہے اماں جی ! آپ کہاں جارہی ہیں؟ لائیے میں سامان اُٹھانے میں آپ کی مدد کروں، آپ گٹھڑی مجھے دے دیجئے، آپ جہاں جانا ھے ، میں آپ کو وہاں تک پہنچا آتا ہوں۔ بڑھیا کہتی ہے: بیٹا! سنا ہے مکہ شہر میں ایک بہت بڑا جادوگر آیا ہوا ہے جس کا نام محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) ہے، جو بھی اس سے ملتا ہے یا اس سے بات کرتا ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے، میں اسی کے ڈر سے یہ شہر چھوڑکر جارہی ہوں کہ کہیں ایسا نہ ھو وہ مجھ پر جادو کردے اور اس کے اثر سے میں اپنے آبائی مذہب اور معبودوں کو چھوڑ نہ بیٹھوں،  اس خوب صورت نوجوان نے اس بڑھیا کی گٹھڑی اپنے سر پر اٹھا کر اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیا اور سامان سر سے اتار کر  واپسی کی اجازت چاہی، تب بڑھیا  نے بہت دعائیں دیں اور کہا کہ: چہرے سے تو کسی اعلیٰ خاندان کے لگتے ہو، اور بہت نیک بیٹے  ہو، تم نے میری مدد کی ہے، میری نصیحت مانو تم بھی اس جادوگر سے بچ کر رہنا، ارے ہاں میں تمہارا نام تو پوچھنا بھول ہی گئی۔ بیٹا تمہارا کیا نام ہے؟ وہ جوان مسکرا کے کہتا ہے: اماں جی میرا نام ہی محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے۔۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی زبان مبارک یہ یہ کلمہ سن کر وہ بڑھیا فوراً مسلمان ہوگئی. 

یہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے، حدیث کی کسی کتاب میں بھی اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ۔ ایسے قصوں کے بیان کرنے سے اور اس کی نسبت نبئ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی طرف کرنے سے بچنا لازمی اور ضروری ہے ۔۔

یہ جاننا ضروری ھے کہ کچھ روایات ایسی ہوتی ہیں کہ کسی سند والی کتاب میں ان کا وجود  ہوتا ہے،پھر یا  تو ان کی سندصحیح ہوتی ہے یاضعیف یا موضوع و ومن گھڑت،  جبکہ کچھ بہت ہی مشہورومعروف روایات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہ کسی سند والی  کتاب میں نہیں ملتیں ۔ ، محدثین ایسی روایات کو ’’لااصل لہ‘‘ کہتے ہیں،یعنی بے بنیاد روایات ۔ 

اللہ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سیرت کے تعلق سے اکثر یہ دو واقعات سننے میں ملتے ہیں، ایک وہ بڑھیا جو اللہ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی اور دوسرا واقعہ اس بڑھیا کا قصہ ہے کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اسکا سامان اٹھایا اور اس نے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بارے میں برابھلا کہنا شروع کردیا پھر جب آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنا نام بتایا تو وہ بڑھیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے اخلاق کی وجہ سے مسلمان ہو گئی ، یہ دونوں واقعات کسی بھی حدیث کی مستند کتاب میں موجود نہیں ھیں بلکہ یہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایتیں ھیں  حدیث کی کسی کتاب میں بھی ان کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ۔ ایسے قصوں کے بیان کرنے سے اور اس کی نسبت نبئ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی طرف کرنے سے بچنا لازمی اور ضروری ہے ۔۔

اللہ پاک ھمیں محفوظ  رکھے

آمین یا رب العالمین


Share:

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کا من گھڑت قصہ

 یہ من گھڑت واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ھے کہ  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر ایک بوڑھی عورت روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی ،ایک دن رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ا س کے مکان کے پاس سے حسبِ معمول گزرے تو آپ پر کسی نے کوڑا نہ پھینکا تو آپ نے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ فلاں مائی خیریت سے تو ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو بیمار ہے، آپ یہ سنتے ہی صحابہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر اس بڑھیا کی تیمار داری کے لیے اس کے گھر چلے گئے، مائی نے دیکھا یہ وہی شخص ہے جس پر میں روزانہ کوڑا پھینکا کرتی تھی مگر وہ برا ماننے اور کچھ کہنے کے بجائے خاموشی اور شرافت سے برداشت کرکے چلاجاتا تھا اور آج وہی میری تیمارداری کے لیے آگیا ہے، یہ دیکھ کروہ بہت متأثر ہوئی اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ عام انسان نہیں واقعی خدا کا پیغمبر ہے، اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا،اس نے حضورآکرم کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سے معافی مانگی اور آپ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر ایمان لے آئی‘‘۔

مذکورہ بالا قصہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے، حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں  اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ۔۔۔ایسے قصوں کے بیان کرنے سے اور اس کی نسبت نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے بچنا لازمی اور ضروری ہے ۔۔

واضح رہے کہ  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی مبارک ذات سے منسوب کسی بھی واقعہ کے درست ہونے کے لیے مستند  کتبِ احادیث میں منقول ہونا ضروری ہے، پس جو واقعہ مستند کتبِ احادیث میں منقول نہ ہو وہ شرعاً بے اصل ہے اور اسے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا شرعاً جائز نہیں۔

بد قسمتی سے مذکورہ بالا بے بنیاد واقعہ ھمارے تعلیمی نصاب کی کتب میں بھی شامل کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ واقعہ بالکل بے بنیاد اور بےاصل قصہ ہے، حقیقت یہ ھے کہ مستند کتبِ احادیث میں ایسا کوئی بھی واقعہ سرے سے موجود ھی نہیں ھے ،  لہذا رسولِ  کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے اخلاقِ کریمہ بیان کرنے کے لیے ایسے من گھڑت  اور گمراہ کن  واقعات کا سہارہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں، اور  مذکورہ قصہ کی نسبت رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی طرف کرنا جائز نہیں۔

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو خلقِ عظیم کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہونے کی سند خود باری تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے، اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی حیاتِ طیبہ میں قدم قدم پر اعلیٰ اخلاقی قدروں کی بے نظیر مثالیں موجود ہیں، مستند ذخیرہ احادیث وکتبِ سیرت ان حوالوں سے بھرا پڑا ہے، لہٰذا رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے کریمانہ اخلاق کے وھی واقعات بیان کرنے چاھیں جو صحیح اور  مستند کتابوں سے ثابت ھوں ۔ 

Share:

اولاد کی اصلاح و تربیت اور قرآنی دعائیں

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ

”اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے ساتھ ان کے راستے پر چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔

(الطور )

یعنی اگر انسان کی اولاد نیک ہو تو اللہ تعالی جنت میں بھی اس کی اولاد کو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سکون کا باعث بنائیں گے، 

اس کی تفسیر میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

  إنَّ اللَّهَ تَبارَكَ وتَعالى يَرْفَعُ لِلْمُؤْمِنِ ذُرِّيَّتَهُ، وإنْ كانُوا دُونَهُ فِي العَمَلِ، لِيُقِرَّ اللَّهُ بِهِمْ عَيْنَهُ. 

”اللہ تعالی مومن کے لیے اس کی اولاد کے درجات بھی اس کے ساتھ بلند کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ تعالی اس کی اولاد کے ذریعے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں، چاہے ان کے اعمال اس سے کچھ کم ہی ہوں۔“ (تفسیر طبری  وسندہ صحیح)

رب کریم نے حضرت انسان کو اس دنیا میں بیجھ کر اسے اپنی بے شمار نعمتوں سےنوازا  ھے تاکہ یہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرے ۔ اولاد بھی اللہ تعالی کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ہے اور یہ نعمت اس وقت اپنے کمال و تمام کو پہنچتی ہے، جب وہ اولاد اطاعت الہی اور اطاعت رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے راستے کو اختیار کرنے والی بھی ہو، اگر اولاد صراطِ مستقیم پر گامزن رھے تو پھر یہی اولاد والدین کے لئے آخرت کی کمائی کے ساتھ دنیاوی شرف و عزت کی معراج بھی بن جاتی ہے ۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے : 

أيُّ شَيْءٍ أقَرُّ لَعَيْنِ المُؤْمِنِ مِن أنْ يَرى زَوْجَتَهُ ووَلَدَهُ يُطِيعُونَ اللَّهَ ذِكْرُهُ. 

”بھلا مومن کے لیے اس سے بڑھ کر آنکھوں کی ٹھنڈک کس چیز میں ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بیوی، بچوں کو اللہ تعالی کے مطیع و فرمان بردار دیکھے۔“ (ابن ابی الدنیا  وسندہ حسن)

اولاد کی اصلاح و تربیت کے حوالے سے اسباب دو طرح سے ہیں، ایک تو ظاہری اسباب ھیں جنہیں تقریباٍ ھر شخص جانتا ھے اور ان اسباب کو اختیار کرنے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ھے اور دوسرے باطنی و روحانی اسباب ھیں جو تفصیلی مضمون کی متقاضی ہیں، ان  باطنی اسباب میں سے ایک اہم سبب اولاد کے لیے دعائیں کرنا ھے  اور پھر دعاؤں میں بھی بالخصوص قرآنی دعائیں جو انبیاء کرام  نے اپنی اولاد کے لیے کیں یا اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کی اس حوالے سے جو دعائیں ذکر کی ہیں ان میں  سے چند دعاؤں کا ذکر یہاں کرنا  مقصود ہے ۔


حصولِ اولاد کی دعا کے ساتھ اولاد کے صالح ھونے کی دعا

والدین جب بھی اولاد کے حصول کی دعا کریں تو اس وقت ساتھ ہی نیک اولاد کی شرط و تاکید کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا مانگیں، ذیل میں کچھ قرآنی دعائیں درج کی جا رھی ھیں جنہوں نے قبولیت کا راستہ دیکھا ھوا ھے 


سیدنا ابراہیم علیہ السلام  کی نیک اولاد کے لئے دعائیں 


رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ

”اے میرے رب! مجھے (بیٹا) عطا کر دیں، جو نیکوں سے ہو۔“ (الصافات )


رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ. 

”اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا دیں اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھیں ۔“ (إبراهيم : 35)

حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اولاد کے عقیدے و دین کی حفاظت کی مذجورئ بالا دعا مانگی 

والدین کو چاہیے کہ وہ بھی اولاد کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی انہیں صحیح عقیدے اور عملِ صالح پر گامزن رکھے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی :

اسی طرح  حضرت ابراھیم علیہ السلام  نے یہ دعا بھی مانگی

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ. 

”اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دیں، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر لیں ۔“ (إبراهيم )

معلوم ہوا کہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنی اولاد کے عقیدے اور اعمال کے متعلق اس قدر فکر مند تھے تو ہمیں بالاولی اپنی اولاد کے لیے فکر کرنی چاہیے اور ان کے عقائد و اعمال کی اصلاح کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔


 سیدنا زکریا علیہ السلام  کی اولاد کے لئے دُعائیں 


رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ. 

”اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرمائیں، بے شک آپ ہی دعا کو بہت سننے والے ہیں۔“ (آل عمران )

 ۔سیدنا زکریا علیہ السلام نے اخلاق وکردار میں پسندیدہ اولاد

کے لئے جو جو دعا کی اس میں یہ الفاظ بھی تھے کہ اے اللہ مجھے اولاد عطا کریں کہ

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا. 

”جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب! اسے (اپنا اور لوگوں کا) پسندیدہ بنا دیں۔“ (مريم )

اللہ تعالی نے پھر ان کی دعا کو قبول فرمایا چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ھے: 


وَحَنَانًا مِّنْ لَّـدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا (13)

  وَبَرًّا بِوَالِـدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا (14) 

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِـدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا (15) 

”اور (ہم نے انہیں) اپنی طرف سے بڑی شفقت اور پاکیزگی (عطا کی) اور وہ بہت متقی و پرہیزگار تھے، اپنے والدین کے ساتھ بہت نیک سلوک کرنے والے تھے، سرکش، نافرمان نہ تھے، اور ان پر سلامتی ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن فوت ہوں گے اور جس دن زندہ ہو کر دوبارہ اٹھایا جائے گا۔“ (سورہ مريم )

اس کی تفسیر میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أوْحَشُ ما يَكُونُ الخَلْقُ فِي ثَلاثَةِ مَواطِنَ: يَوْمَ يُولَدُ فَيَرى نَفْسَهُ خارِجًا مِمّا كانَ فِيهِ، ويَوْمَ يَمُوتُ فَيَرى قَوْمًا لَمْ يَكُنْ عايَنَهُمْ، ويَوْمَ يُبْعَثُ فَيَرى نَفْسَهُ فِي مَحْشَرٍ عَظِيمٍ، قالَ: فَأكْرِمَ اللَّهُ فِيها يَحْيى بْنَ زَكَرِيّا، فَخَصَّهُ بِالسَّلامِ عَلَيْهِ، فَقالَ ﴿وسَلامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ ويَوْمَ يَمُوتُ ويَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا﴾

’’انسان تین مواقع پر سب سے زیادہ خوف زدہ ہوتا ہے، پہلا جس دن پیدا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو باہر نکل کر نئی دنیا میں دیکھتا ہے، دوسرا جس دن فوت ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کو دیکھتا ہے جنھیں اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا اور تیسرا جس دن وہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اپنے آپ کو بہت بڑے مجمع میں لوگوں کے درمیان دیکھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں مواقع پر یحییٰ بن زکریا علیھما السلام کو عزت بخشی اور انھیں سلامت رکھنے کی خاص نعمت  سے نوازا۔‘‘

(تفسیر طبری  -  الزهد الكبير للبيهقي  وسندہ صحیح)


سیدہ اُمِّ مریم علیہا السلام  کی بیٹی کی پیدائش پر اس کے لیے دعا 

سیدہ اُم مریم علیہا السلام کو جب اللہ نے نعمتِ اولاد سے نوازا تو انہوں نے سب سے پہلے ان کی شیطان سے حفاظت کی دعا کی :

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ.

”پھر جب ان کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی، تو کہا: اے میرے رب! یہ تو میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اللہ تعالی زیادہ جاننے والے ہیں، کہ ام مریم کے ہاں کس کی پیدائش ہوئی، یقیناً لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں، میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں۔“ (آل عمران )

اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ پھر سیدہ مریم علیہا السلام دنیا کی کامل ترین پاکیزہ عورتوں میں شامل ہو گئیں، سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا :

 لَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ. 

”عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہی کامل ترین عورتیں تھیں۔“ (صحیح بخاری و صحیح مسلم


اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کی دعا

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اپنے بندوں کی دعا بیان کی کہ وہ دعا کرتے ہیں :

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا. 

”اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔“ (الفرقان ) 

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أوْلادًا أبْرارًا أتْقِياءَ، يَقُولُونَ اجْعَلْهُمْ صالِحِينَ فَتَقَرَّ أعْيُنُنا بِذَلِكَ. ”انہیں نیک، متقی اور صالح بنا دے کہ اس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔“ (تفسیر بغوی )

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

أَنَّ الْإِنْسَانَ إِذَا بُورِكَ لَهُ فِي مَالِهِ وَوَلَدِهِ قَرَّتْ عَيْنُهُ بِأَهْلِهِ وَعِيَالِهِ. 

”یہ دعا اس لیے ہے کہ جب انسان کا مال و اولاد بابرکت ہو تو اس کی آنکھیں اپنے اہل وعیال سے ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔“ (تفسیر قرطبی )


اولاد کی اصلاح کی دعا 

 اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اپنے ایک نیک و صالح شخص کی دعا نقل فرمائی کہ جب وہ پختہ عمر کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے :

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ. 

”اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں آپ کی اس نعمت کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہیں اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے آپ پسند کرتے ہیں اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دیں، بے شک میں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔“ (الأحقاف )

مولانا عبد السلام بھٹوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : وَاَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ: اس دعا میں دو الفاظ قابل غور ہیں، ایک ’’ لِيْ ‘‘ اور دوسرا ’’فِيْ‘‘۔  ’’اَصْلِحْ لِيْ‘‘(میرے لیے اصلاح فرما دے) کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ایسی اصلاح فرما جس کا فائدہ مجھے بھی حاصل ہو۔’’ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ‘‘ یہاں بظاہر ’’أَصْلِحْ لِيْ ذُرِّيَّتِيْ‘‘ (میرے لیے میری اولاد کی اصلاح فرما دے) کافی تھا، جیسا کہ فرمایا : «وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ» [ الأنبیاء ] اور ہم نے اس کے لیے اس کی بیوی کی اصلاح فرما دی۔‘‘ مگر ’’ فِيْ ‘‘ لانے کا مطلب یہ ہے کہ میری اولاد میں اصلاح کا عمل جاری و ساری فرما دے جو آگے تک چلتا رہے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا : « وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ» [ الزخرف ] اور اس نے اس (توحید کی بات) کو اپنے پچھلوں میں باقی رہنے والی بات بنا دیا۔‘‘ (تفسیر القرآن الکریم)۔ 

اس آیت کریمہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کریں اور بالخصوص جو چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے وہ بکثرت یہ دعا کرے ۔ 

خلاصۂ کلام یہ کہ والدین اپنی اولاد کی بہتری کے لئے یقیناً ھر ممکن کوشش تو کرتے ھیں لیکن یہ بات بھی مشاھدہ کی  ھے کہ اس سلسلہ میں اکثر لوگ دعاؤں  سے بہت زیادہ غفلت برتتے ھیں خاص کر قرآنی دعاؤں  کی طرف تو دھیان  کم ھی جاتا ھے جبکہ یہ مقبول قرآنی دعائیں اپنے اندر بہت زبردست اثرات رکھتی ھیں  لھذا ھمیں اھتمام کے ساتھ ان  قرآنی دعاؤں کو اختیار کرکے اولاد کی اصلاح و تربیت کو کوشش ضرور کرنی چاھیے۔ 

اللہ پاک ھم سب کو اس کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share:

حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے کو حدِ زنا پر کوڑے مارنے کا من گھڑت واقعہ


حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے متعلق ایک من گھڑت واقعہ عموماً  سننے میں آتا ھے کہ انہوں نے اپنے بیٹے ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو حد زنا میں سو کوڑے  لگائے تھے ، بیان کردہ واقعہ کے مطابق  جب نوے کوڑے ان کے جسم پر لگے تو اُن کی وفات ھو گئی اور پھر حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے حکم پر  دس کوڑے ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی لاش یا قبر پر لگائے گئے۔  بدقسمتی سے  یہ جھوٹی داستان بہت سے لوگوں  کی زبان پر جاری ھو گئی ہے بلکہ اچھے اچھے لوگ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا عدل وانصاف ثابت کرنے کے لئے برسرِ منبر اس کہانی کو پیش کرنے لگے ۔  اس داستان میں جو زہر بھرا ہوا ہے۔ اس سے عوام الناس  تو کیا واقف ہوتے، ہمارے بہت سے علماء کرام کی بھی اس پر نظر نہیں جاتی۔ درآصل یہ داستان ایک فریب اور غلاظت کا ڈھیر ہے جس پر سونے کا ورق چڑھا دیا گیا ہے اور ہر شخص صرف اس سونے کے ورق کو دیکھ رہا ہے۔ کوئی اس غلاظت کو کرید کر دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس عدل وانصاف کے پردے میں جہاں حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے صاحبزادے ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بدکار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رھی  ہے  وہاں حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو احکام شریعت سے ناواقف  اور ظالم وجابر بنا کر پیش کیا جا رھا ہے۔ اس کے علاوہ اس رام کہانی میں اتنا زبردست اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے کہ جس کا رفع ہونا شاید قیامت تک بھی ممکن نہ ھو ۔ کسی فریب کار نے  اسے مختصراً بیا ن کیا ہے اور کسی نے اسے تفصیل سے ، جو کسی صورت میں بھی داستان ہو شربا سے کم نہیں ہے۔ یہ بات زھن نشین کر لینی چاھیے کہ اس خود ساختہ داستان کے حوالے سے بیان کردہ تمام روایات قصہ گوؤں کی گھڑی ہوئی ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ ان روایات میں نہ تو کسی روایت کی سند درست ھے نہ ہی متن۔

حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایک بیٹے ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  تھے ،ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ان کی کنیت تھی ،ان کا نام عبدالرحمن الاوسط رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھا ،ان کی والدہ کا نا م  لہیۃ تھا ۔ اُنہیں حدِ زنا پر کوڑے لگانے کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ھے وہ بالکل غیر مستند ہے ۔  مجہول اسناد سے بعض کتب میں غلط امور شامل کرکے مبالغہ آرائی کے ساتھ اُن کے حوالے سے یہ واقعہ بڑھا چڑھا کر بیان کردیا گیا ھے ۔ اس واقعہ کے گھڑنے میں شیعہ فیکٹر کا ھونا بھی بعید از قیاس نہیں کہ بغضِ عمر ( جو اُن کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ھوا ھے ) میں انہوں نے اسے گھڑ لیا ھو اور عوام الناس میں مشہور کر دیا ھو جیسا کہ ان کی اس طرح کی خباثتیں تاریخ کے اوراق میں بھری  پڑی ھیں ۔ 

اب آتے ھیں  اصل واقعہ کی طرف جو صرف اتنا منقول ہے کہ حضرت عبدالرحمن اوسط رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سیدنا حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اولاد میں سے تھے جن کی کنیت ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھی وہ جہاد کے سلسلہ میں مصر تشریف لے گئے تھے ایک رات انھوں نے نبیذ پی لی ( نبیذ عرب کے محبوب مشروبات میں سے تھی ۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو بھی یہ مشروب مرغوب تھا،چھوہارے یا کشمش وغیرہ کو پانی میں ڈال دیاجاتا تھا،اس کی مٹھاس پانی میں آجاتی تھی ۔ اسے رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نوش فرمالیتے تھے،صبح کا ڈالا ہوا شام میں اور شام کا ڈالا ہوا صبح میں پی لیتے تھے۔لیکن پانی میں اتنی زیادہ دیر ڈالے رکھنا اور چھوڑے رکھنا کہ گاڑھاپن اور نشہ آجائے یا جھاگ آجائےتو اس سے نشہ پیدا ہو جاتا  ہے اور رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نشہ کو حرام قرار دیا ہے،لہذا نشہ آورنبیذ پینا حرام ہے اور پہلی صورت میں غیر نشہ آور نبیذ پینا جائز ہے) تو نبیذ جس کا پینا فی نفسہ تو جائز ہے البتہ اگر اس میں نشہ پیدا ہوجائے تو پھر اس کا پینا جائز نہیں ہوتا ۔ جو نبیذ حضرت ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے پی تھی ، اتفاقاً اس میں نشہ پیدا ہوگیا تھا (نشہ پیدا ہوجانے کا ان کو احساس پینے سے پہلے نہیں ہوا) جب پینے کے بعد اُن ہر نشہ طاری ہوگیا تو وہ پریشان ھو گئے  اور خوف آخرت اور اللہ پاک کے ڈر اور تقوی پرہیزگاری کی وجہ سے انہوں نے امیر مصر حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جاکر سارا واقعہ سنایا اور پھر خود ھی ان سے یہ درخواست کی کہ میرے اوپر نشہ آور نبیذ پینے کی شرعی حد جاری کردیجیے۔  امیر مصر حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حد جاری کرنے سے معذرت کردی مگر حضرت ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اگر آپ نے حد جاری نہ کی  تو میں آپ کی شکایت اپنے والد  حضرت امیرالموٴمنین عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے کردوں گا تب آمیرِ مصر  نے اپنے گھر کے اندر  ھی ان پر حد جاری کر دی ۔ یہ بات جب امیرالموٴمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو معلوم ہوئی تو انھوں نے حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو سخت ملامت کی کہ آپ نے صاحبزادے پر گھر میں حد کیوں جاری کی ؟ یہ حد تو جہاں عوام الناس پر جاری کی جاتی ہے اسی میدان میں ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر بھی جاری ھونا  چاہیے تھی ،  امیرالموٴمنین حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اپنے بیٹے ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو مدینہ منورہ طلب کیا  جب ابوشحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر خدمت ہوئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے قانون کے مطابق ان پر عام لوگوں کی طرح دوبارہ حد جاری فرمائی کیونکہ اُن کے نزدیک سر عام حد جاری  کرنا  ھی ضروری تھا اور بعد میں اتفاقاً  ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار ہوگئے اور چونکہ اللہ تعالی کی طرف سے موت کا وقت آ گیا تھا اس لئے اسی بیماری میں تقریباً ایک ماہ کے بعد ان کی وفات ہوگئی ۔  ابو شحمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس واقعہ کے بعد بھی کم و بیش ایک ماہ  تک زندہ رھے۔ یہ   ظاھر سی بات ھے کہ انہیں تمام کوڑے زندہ حالت میں ھی لگائے گئے تھے لہذا لاش یا قبر پر کوڑے مارنے والی بات بھی بالکل خود ساختہ اور بے بنیاد ھے 

ھمیں اس بے بنیاد واقعہ کو بیان کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاھیے ورنہ روزِ قیامت اس کے لئے اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ  ھونا پڑے گا۔ اللہ تعالی ھم سب کی حفاظت فرمائے۔ 

آمین یا رب العالمین 

Share: