السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُاللهِ وَبَرَكَاتُه


*مبارك عليكم شهر رمضان*

الْلَّھُم أَهِلَهُ عَليْنَا بِالْأمْنِ وَالإِيْمَانِ وَالْسَّلامَةِ وَالْإِسْلَامِ وَالْعَوْنٓ عَلَى الْصَّلاةِ وَالصِّيَامِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْآَنِ 

الْلَّھُمّ سَلِّمْنَا لِرَمَضَانَ وَسَلِّمْهُ لنا وَتَسَلَّمْهُ مِنّا مُتَقَبَّلاً يٓارٓبٓ العٓالِٓمينْ.

*كُلُّ عامٍ وأَنْتُمْ بِخَيْرٍ*


وَعَلَيْكُمْ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُاللهِ وَبَرَكَاتُه

Share:

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے نکاحوں کی حکمت اور ایک ایمان افروز سچا واقعہ


لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)

(بیشک تمہارے پاس تم میں  سے وہ عظیم رسول ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ) تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں  پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ) تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں  پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں 

اللہ تعالیٰ جل جلالہ احکم الحاکمین اور اصدق القائلین اپنے معجز کلام قرآن کریم میں مہبط قرآن حضرت خاتم النبیین وسید المرسلین جناب محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو یوں مخاطب ہوتے ہیں :

وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ

اور ہم نے تمہیں (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ )  تمام جہانوں  کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ھے ۔

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بلا شبہہ تمام جہانوں کے لئے رحمت ھیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نہ صرف ذات مبارک بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا ھر ھر فعل و عمل بھی اُمت کے لئے رحمت ھی رحمت ھے اکثر دوسرے مذاھب کے لوگ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مبارک نکاحوں پر اپنی اسلام دُشمنی کی وجہ سے بیجا تنقید کرتے ھیں حالانکہ اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ھوتا ھے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مبارک نکاح بھی اُمت کے لئے کس قدر باعثِ رحمت و برکت ثابت ھوئے ھیں 

ایک پروفیسر صاحب اپنا واقعہ تحریر فرماتے  ہیں کہ میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو میں ملازمت کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کانفرنس منعقد کرائی اور تمام  اساتذہ کرام کو بھی مدعو کیا۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو (جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی نجی زندگی پر مفصل بیان کیا اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی اور یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ شادی کیوں کی؟ اور اس سے امت مسلمہ کو کیا فائدہ ہوا۔ یہ بیان اتنا موثر اور مدلل تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا۔ کانفرنس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار واپس آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے ایک عجیب بات کی۔ انہوں نے کہا کہ آج رات میں دوبارہ مسلمان ہوا ہوں میں نے وجہ پوچھی تو ‏انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ سپیلائزیشن  کے لیے انگلستان گئےتھے تو جاتے ھوئے ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ اس لڑکی نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟  میں نے کہا میرا مذھب اسلام ھے۔ اُس نے ہمارے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا نام مبارک پوچھا تو میں نے حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بتایا، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا کیونکہ مجھے اس کا واقعی علم نہیں تھا  تو اس لڑکی نے کہا یہ بات بالکل حق اور سچ ہے کہ آپ کے نبی اور رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے گیارہ شادیاں کی تھیں اس کے بعد اس لڑکی نے حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے  بارے میں (معاذاللہ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ دو تین اور الزامات بھی لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے  بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور میں جب لندن کے ہوائی اڈے پر اترا تو اُس وقت میں مسلمان نہیں تھا۔

‏آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں وھاں کسی مسلمان کو کھبی نہیں ملا، نہ کھبی نماز پڑھی حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی تھی ۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور عیسائیوں کے طریقہ پر اُن کے ساتھ مل کر عبادت کرتا تھا اور لندن کے مسلمان لوگ مجھے عیسائی ھی سمجھتے تھے اور فی الحقیقت میں اُس وقت تھا بھی عیسائی ۔ جب میں آٹھ سال بعد پاکستان واپس آیا تو ہڈیوں کا ماہر ڈاکٹر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کردیا۔یہاں بھی میری وہی عادت رہی۔ مسلمانوں کی کسی بھی عبادت میں شرکت نہیں کرتا تھا ۔ آج رات اللہ تعالی نے مجھ پر اپنا کرم فرمایا اور اس لیکچرار کا بیان سن کر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے حوالے سے میرا دل بالکل صاف ہو گیا اور میں الحمدُ للہ پھر سے کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ھو گیا ھوں ۔ 

غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے میرے جیسے ایک پڑھے لکھے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر آج ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب  کا یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی  اور دین سے عدم دلچسپی ہے۔میں نے برطانیہ میں دیکھا کہ ھماری اسی نالائقی کی وجہ سے ‏عیسائی لوگ خاص کرخواتین آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی شادیوں پر بیجا اعتراض کرتی رھتی تھیں اور دین سے ناواقف اور بے بہرہ نام نہاد  لبرل مسلمانوں کو گمراہ کرتی رھتی تھیں ۔ 

آیئے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ان حقائق پر روشنی ڈالیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کے اعتراضات کا باعث بنتے ہیں۔وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ میرے پیارے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 برس تھی، جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دوسری شادی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ایک بیوی پر ھی قناعت کی۔ (اگر بالفرض کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ زندگی گزارنے پر کیسے اکتفا کرسکتا ہے۔

‏حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نکاح   کئے۔پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال پوچھا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں  آپ میں سے کون نوجوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا ؟ سب خاموش رہے۔  ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے  پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی بیوہ سے نکاح کیا ہے، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے کی ہیں۔ سوائے ایک کے، باقی سب بیوہ/ مطلقہ عورتوں سے ھی کی  تھیں۔ یہ سن کر سب حیران ہوگئے۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے مجمع کو بتایا کہ جنگ اْحد میں 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کی ترغیب دی ، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے خود بھی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا۔ ‏حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اورحضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا جو سب بیوہ تھیں سے مختلف اوقات میں نکاح کئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں، جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے۔اس زمانے میں عربوں میں کثرت ازواج کا رواج عام تھا۔ مزید شادی کے ذریعے دوسرے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پیش نظر تھا۔ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا، اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے تھے۔ ابوسفیان ؓ  ایمان لانے سے پہلے حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے شدید ترین مخالف تھے۔ ‏مگر جب ان کی بیٹی اُم حبیبہ  رضی اللہ عنہاسے حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی، رشتے میں بدل گئی۔واقعہ یہ ہوا یہ کہ  ام حبیبہ  رضی اللہ عنہاپہلے مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئی تھیں، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا۔ حضرت ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی اور بہت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے گھر مکہ مکرمہ پہنچیں۔ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ مصطلق کا سردار تھا۔ حضور ؐاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اس قبیلہ سے جہاد کیا، ان کا سردار مارا گیا. ‏حضرت جویریہ  رضی اللہ عنہا  قید ہوکر ایک صحابی ؓ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سردار کی بیٹی کا نکاح حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے مسلمان ہو گئے۔ قلعہ خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ  رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی ؓ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ا ن کا نکاح بھی حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے کرا دیا۔ اسی طر ح میمونہ  رضی اللہ عنہاسے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقے میں اسلام پھیلا۔ ان شادیوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے  اخلاقِ کا مشاہدہ کر یں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا  پہلے عیسائی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ ؐصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔

‏حضرت زینب رضی اللہ عنہا  بنت جحش  سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا گیا۔ حضرت زید ؓ  حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے منہ بولے بیٹے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب  رضی اللہ عنہابنت جحش سے ہوا تھا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زیدؓ  نے انہیں طلاق دے دی تو حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ان سے نکاح کر لیا اور ثابت کردیا کہ منہ بولا بیٹا ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سیرت مبارکہ ہے۔

‏آپ ؐکی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ صرف ایک صحابیہ کے لیے یہ کام  مشکل تھا۔ اس کام کی تکمیل کے لیے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے متعدد نکاح کیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر ایک اس بات کو نوٹ کرے،جو گو رات کے اندھیرے میں دیکھیں۔ حضرت عائشہ ؓ جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضورآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ رضی اللہ عنہا کو خاص طور پر تعلیم دی۔ حضور اقدس ؐصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ظاہری وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں۔

‏صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے پر ہمیں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا۔اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے۔ ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھر، عورتوں کے لیے دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور سار ی دنیا کے لیے تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے کہا اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کرلیں تو کوئی بدبخت حضور ؐآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ذات پر حملہ کرنے کی حماقت نہیں کرسکتااور اگر کوئی یہ حماقت کرتا بھی ہے تو ہم سب اس کا شافی و کافی دفاع کرسکتے ہیں۔

خلاصئہ کلام یہ کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بہ امر خداوندی جتنے نکاح کیے ہیں، سب میں زبردست مصلحتیں اور حکمتیں مخفی ہیں۔ کھلے ذہن کے ساتھ غور وفکر سے واضح ہوتا ہے کہ اہم تعلیمی ودینی مفادات ومصالح ان متعدد نکاحوں سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے بعض تو مشترکہ عمومی مفادات ہیں جو ساری ازواج سے متعلق ہیں اور بعض عمومی مفادات ومنافع وہ ہیں جو کسی خاص زوجہ سے متعلق ہیں اور اسی نوعیت کے بعض خاص مفادات ہیں۔ گویا نبوی تعددازواج کے بے شمارسماجی فوائد و اثرات ہیں جسے نمونہ بنا کر دینا بہترین عالمگیر سماج پیدا کر سکتی ہے اور اگر پوری دنیا کی گھریلو زندگیاں نبوی عائلی زندگی کو ماڈل بنا لیں تو عالمی اطمینان و امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے

Share:

کم تولنے کی سزا دنیا ھی میں

ایک مرتبہ کا ذکر ھے کہ خلیفہ ھارون رشید نے بہلول دانا کو ھدایت کی کہ آپ بازار جائیں اور قصائیوں کے ترازو اور جن پتھروں سے وہ گوشت تولتے ھیں وہ چیک کریں اور جن کے تول والے ترازو میں کوئی گڑبڑ ھو یا تول والا  پتھر کم نکلے انھیں گرفتار کرکے یہاں دربار میں حاضر کریں 

خلیفہ کے حکم کے مطابق  بہلول دانا بازار گئے پہلی گوشت کی دکان پر پہنچے تو قصائی کا تول والا پتھر چیک  کیا تو وہ کم نکلا جس کا مطلب صاف ظاھر تھا کہ قصائی کم تولتا ھے اور پیسے پورے لیتا ھے ۔ بہلول نے قصائی سے سوال کیا  کہ آپ کے مالی حالات کیسے چل رھے ھیں..؟ قصائی نے جوب دیا کہ میرے حالات تو بہت ھی خراب ھیں بلکہ یوں سمجھو کہ میرے اوپر بہت ھی بُرے دن آئے ھوئے ھیں ۔ میرا دل چاھتا ہے کہ یہ گوشت کاٹنے والی چھری  اپنے بدن میں گھسا دوں اور اس زندگی سے نجات حاصل کرکے ابدی ننید سو جاوں 

بہلول آگے بڑھے اور دوسری گوشت  والی دکان کے تول والے پتھر کو چیک کیا تو  وہ بھی کم نکلے تو قصائی سے پوچھا  کہ آپ کے  گھر کے حالات کیسے ھیں ؟ قصائی نے جواب دیا  کہ میرے گھر کے حالات اسقدر پریشان کُن ھیں کہ اُنہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ میں تو یہ کہتا ھوں کہ کاش اللہ تعالی نے مجھے پیدا ھی نہ کیا ھوتا ۔ حقیقت یہ ھے کہ میں بہت ھی  ذلالت بھری زندگی گزار رھا ھوں ، اولاد نافرمان ھے اور بے شمار پریشانیاں گھر میں ھیں جنہیں بیان کرنےکا حوصلہ نہیں ۔ حقیقت یہ ھے کہ ایسی زندگی سے تو موت ھی بہتر ھے اور سکون نام کی کوئی چیز میرے پاس نہیں ھے 

بہلول اگے بڑھے اور تیسری گوشت کی دکان پر پہنچے اور اُس کے  تول والے پتھر چیک کیے تو یہ تولنے والے پتھر بالکل درست پائے ۔ بہلول نے اس  قصائی سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کیسے گزر رھی ھے.... ؟ قصائی نے جواب دیا  کہ اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر ھے ۔ میں بہت ھی خوشگوار اور مطمئن زندگی گزار رھا  ھوں۔  اللہ تبارک تعالٰی نے مجھ پر بڑا ھی کرم کیا ھوا ھے ۔ الحمدُ للہ میرا کاروبار بھی آچھا چل رھا ھے اور پھر میری خوش قسمتی ھے کہ میری بیوی اور میری تمام اولاد بہت ھی نیک اور فرمانبردار ھیں جنہیں دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ھوتی ھیں ۔ اللہ کا شکر ھے میری زندگی بہت ھی پُرسکون گزر رھی ھے

بہلول دانا  واپس خلیفہ کے دربار میں پہنچے تو  خلیفہ ھارون الرشید نے پوچھا  کہ بازار کی  صورت حال  کیا ھے..؟ بہلول نے جواب دیا کہ آکثر قصائیوں کے تول والے پتھر کم نکلے ھیں. خلیفہ  نے غصے سے کہا کہ پھر آپ انھیں گرفتار کرکے یہاں کیوں نہیں لائے ۔ بہلول نے کم تولنے والے قصائیوں کے گھریلو حالات خلیفہ کو بتائے اور کہا اے خلیفہ!   جب اللہ تعالٰی انھیں خود ھی اسی دنیا میں سزا دے رھا ھے اور اللہ پاک نے ان پر دنیا تنگ کردی ھوئی ھے تو ھمیں اُنہیں یہاں لانے اور سزا دینے کی کیا ضرورت ھے ۔ 

آج ھمارے معاشرے میں بھی صورت حال کچھ ایسی ھی ھے ۔ حلال اور حرام کی تمیز بالکل ختم ھو چکی ھے اور دوسروں کو دھوکہ دینا ایک فن سمجھا جا رھا ھے ۔ ھم نے بھی بس دنیا کو اپنایا ھوا ہے ۔ اسی کی فکر ھے، حرام ، حلال اور آخرت کی بالکل  کوئی فکر ھی نہیں اور حقیقت یہ ھے ھمارے  گھروں کی اکثریت  کے حالات بھی کچھ اُن کم تولنے والے قصائیوں سے مختلف نہیں ھیں  ۔ اولادیں رزقِ حرام کھانے کی وجہ سے بگڑ چکی ھیں۔  والدین سکون کی دولت سے یکسر محروم  ھیں ۔ پریشانیاں ھی پریشانیاں ھیں ۔ آئے دن دلخراش واقعات آخبارات کی زینت بنتے رھتے ھیں ۔ درآصل یہ نتائج ھیں اُس  مال و متاع کے جو ھم نے دھوکہ  دھی سے دوسروں کے حقوق سلب کرکے حاصل کر رکھا ھے اور جس کا حساب ھم نے ھی مرنے کے بعد دینا ھے جو یقیناً بہت ھی سخت ھو گا

Share:

مسلمان ہار گئے لیکن اسلام جیت گیا

حضرت مولانا  مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ ھندوستان  میں ایک بہت  بڑے عالم اور بزرگ  گزرے ھیں ۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا  ذکریا رحمة اللہ علیہ کے خاندان میں سے تھے اور  حضرت شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے ۔  اللہ تعالی نے انہیں علم و عمل کی دولت فراونی سے عطا فرمائی ھوئی تھی ۔ اس دولت کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے اُنہیں  سچی زندگی بھی عطا فرمائی تھی ۔ وہ صحیح معنوں میں صداقت کا پیکر تھے۔  مشکل سے مشکل حالات  میں بھی اُن کا دامن جھوٹ سے کھبی آلودہ نہ ھوا۔  اُن کی سچائی کا ایک حیران کن واقعہ ملاحظہ فرمائیں 

انگریز حکومت کا دور تھا  کہ ھندوؤں  اور مسلمانوں میں ایک جھگڑا پیدا ھو گیا اور دیکھتے ھی دیکھتے یہ جھگڑا کافی شدت اختیار کر گیا ۔ جھگڑا کاندھلہ میں ایک زمین کے ٹکڑے پر تھا۔ مسلمان کہتے تھے کہ یہ قطعۂ زمین ہمارا ہے اور ہندو کہتے تھے کہ یہ ہماری ملکیت  ہے ۔ چنانچہ انگریز کی  عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا ۔ مقدمہ انگریز کی عدالت میں پہنچا تو آنگریز جج نے مقدمہ کی کاروائی شروع کر دی اور  جب مقدمہ کی کاروائی آگے بڑھی تو مسلمانوں نے عدالت میں آ کراعلان کردیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا  اگر ھمیں مل گیا  تو ہم اس پر اللہ کا گھر ( مسجد) بنائیں گے ہندوؤں نے جب مسلمانوں سے یہ بات سنی تو انہوں نے بھی ضد اور جوش میں آ کر کہہ دیا کہ یہ ٹکڑا اگر ہمیں ملا تو ہم اس پر مندر بنائیں گے۔ 

جب یہ مقدمہ شروع ھوا تھا تو یہ انفرادی نوعیت کا ایک عام مقدمہ تھا لیکن فریقین کے مسجد اور مندر بنانے کے  اعلانات سے اس مقدمہ نے اجتماعی ، جذباتی اور  مذھبی شکل آختیار کر لی ۔  حتٰی کہ  ایک طرف مسلمان جمع ہوگئے اور دوسری طرف  ہندو اکٹھے ہوگئے اور یہ مقدمہ ایک خاص نوعیت کا بن گیا ۔ اب قریب تھا کہ کسی غلط فیصلے کے باعث سارے شہر میں ھندو مسلم فسادات پھیل جائیں اور قتل وغارت ہو جائے۔ خون خرابہ کا شدید خطرہ پیدا ھو گیا تھا ۔ بستی کے لوگ بھی بڑے حیران  و پریشان تھے کہ نہ جانے صورت حال کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ انگریز جج  بھی اپنی جگہ بہت پریشان تھا اور وہ چاھتا تھا کہ فریقین کے درمیان میں کوئی صلح وصفائی کا پہلو نکل آئے ورنہ ایسا نہ ہو کہ فساد کی یہ آگ اگر جل پڑی تو پھر اس کا بجھانا مشکل ہو جائے ۔ انگریز جج  نے بہت سوچ بچار کے بعد فریقین کو ایک تجویز پیش کی ۔ تجویز یہ تھی کہ کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ آپ لوگ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا کوئی حل نکال لیں ۔ ہندوؤں نے ایک تجویز پیش کی کہ ہم آپ کو ایک مسلمان عالم کا نام تنہائی میں بتائیں گے ۔ آپ اگلی پیشی پر ان کو بلا لیجیے گا  اور ان سے اس زمین کے متعلق پوچھ لیجئے گا  اگر وہ کہہ دیں  کہ یہ مسلمانوں کی زمین ہے تو آپ یہ زمین ان کو دے دیجئے اور اگر وہ یہ کہیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین نہیں ہندوؤں کی ہے تو ہمیں دے دیجئے۔  جب جج نے دونوں فریقوں  سے پوچھا تو دونوں فریق اسی پر راضی ہوگئے مسلمانوں کے دل میں یہ بات تھی کہ مسلمان جو بھی ہوا وہ مسجد بنانے کی ہی بات کرے گا ۔ چنانچہ انگریز جج نے مہینہ کے بعد  کی تاریخ دے دی کہ اس دن آنا اور میں اس بڈھے کو بھی بلوالوں گا ۔ اب جب مسلمان باہر نکلے تو بڑی خوشیاں منارہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔  باھر موجود ہندوؤں نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ تم نے عدالت میں یہ کیا کہہ دیا ، تم نے ایک مسلمان عالم کو حَکَم بنالیا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر جو کہے گا اسی پر فیصلہ ہوگا اب ہندوؤں کے دل مرجھا گئے اور مسلمان خوشیوں سے پھولے نہیں سماتے تھے ۔ لیکن اس انتظار میں تھے کہ دیکھیے اگلی پیشی میں کون مسلمان عالم  آتا ھے اور کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہندوؤں نے اس شرط پر مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کا نام  انگریز جج کو بتایا کہ  مقررہ  تاریخ تک اسے صیغہ راز میں رکھا جائے گا ۔ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے اور اللہ تعالی نے ان کو سچی زندگی عطا فرمائی ھوئی تھی ۔ عدالت نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو بھی سمن جاری کر دیئے کہ تاریخِ مقررہ پر عدالت میں آکر زمین کی ملکیت کے متعلق گواھی دیں ۔ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے جج کو جواب بجھوا دیا  کہ میں نے یہ قسم کھا رکھی ھے کہ میں کھبی بھی کسی بھی انگریز کی شکل نہیں دیکھوں گا ۔ لھذا میں اپنی قسم کی وجہ آپ کی عدالت میں حاضر ھونے سے قاصر ھوں ۔ انگریز جج نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ  کو دوبارہ پیغام  بجھوایا کہ آپ  براہ مہربانی تاریخ مقررہ پر عدالت آکر گواھی ضرور دیں کیونکہ آپ کے مذھب میں بھی فساد کو ختم کرنے اور دو فریقوں میں صلح کروانے کا حکم موجود ھے ۔ رھی بات آپ کی قسم کی تو آپ عدالت آکر میری طرف چہرے کا رخ کرکے کھڑے نہ ھونا بلکہ میری طرف پیٹھ کرکے کھڑے ھو جانا تاکہ آپ میری شکل نہ دیکھ سکیں۔ اس طرح آپ کی قسم بھی  نہیں ٹوٹے گی  اور میں اسے توھینِ عدالت بھی نہیں کہوں گا ۔ 

اب  مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو عدالت جانے ہر کوئی  اعتراض نہیں تھا چنانچہ  مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ مقررہ تاریخ  اور مقررہ وقت پر عدالت پہنچ گئے ۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ تشریف لائے ہیں تو وہ سوچنے لگے کہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ تو مسجد کی ھی بات کریں گے ۔ چنانچہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ عدالت میں انگریز جج کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ھو گے ۔ جب انگریز جج نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو پوچھا کہ مفتی صاحب ! آپ بتائیے کہ یہ زمین کا ٹکڑا کس کی ملکیت ہے؟ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو چونکہ حقیقت حال کا پتہ تھا انہوں نے جواب دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا تو ہندوؤں کی ملکیت ہے اب جب انہوں نے یہ کہا کہ جہاں تک میں جانتا ھوں یہ قطعہ زمین ہندوؤں کا ہے تو انگریز جج نے پھر اگلی بات یہ پوچھی کہ کیا اب ہندو لوگ اس کے اوپر اپنا  مندر تعمیر کرسکتے ہیں ۔  مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا جب ملکیت ان کی ہے تو وہ جو چاہیں کریں چاہے گھر بنائیں یا مندر بنائیں یہ ان کا اختیار ہے چنانچہ فیصلہ دے دیا گیا کہ یہ زمین ہندوؤں کی ہے مگر انگریز جج نے فیصلےکے اخیر میں ایک عجیب بات لکھی کہ:

*”آج اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا”*

جب انگریز جج  نے یہ بات کہی تو اس وقت ہندوؤں نے کہا کہ آپ نے تو فیصلہ دے دیا ، اب ہماری بات بھی سن لیجئے ہم اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں کیونکہ جس مذھب کے ماننے والے اتنے سچے ھیں  تو اُن کا نبی کتنا سچا ھو گا لھذا ھم آج یہ اعلان کرتے ہیں کہ ھم نے اسلام قبول کر لیا ھے اور اب ہم اپنے ہاتھوں سے یہاں مسجد بنائیں گے۔

اللہ اکبر کبیراً 

 مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ بیان دینے کے بعد جب عدالت سے باھر نکلنے  لگے  تو اُنہوں نے ایک نظر عدالت میں موجود مقدمہ کے فریق مسلمانوں پر اس انداز سے ڈالی جیسے یہ  کہہ رھے ھوں کہ کیا تمہیں اللہ تعالی  پر بھروسہ نہیں ھے ؟ ۔ 

 مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ جب عدالت سے باھر آئے تو باھر موجود مسلمانوں نے اُنہیں گھیر لیا اور استفسار کیا  کہ آپ نے مسجد کے خلاف اور ھندوؤں  کے حق میں بیان کیوں دیا تو مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میرے سامنے دو چیزیں تھیں ایک قطعۂ زمین جس پر مسجد بننی تھی اور دوسرا میرا دین جس پر میری غلط بیانی کی صورت میں کذب کا ایک بدنما دھبہ لگ جانا  تھا تو میں کسی بھی صورت میں اپنے دین پر دھبہ برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ چونکہ میرے علم میں تھا کہ یہ زمین ھندؤں کی ھے اس لئے میں نے سچائی کا دامن نہیں چھوڑا اور پھر اللہ پاک نے اس کا انعام بھی مسلمانوں کو نقد ھی عطا فرما دیا کہ نہ صرف زمین جائز طریقے سے مسجد کو مل گئی بلکہ مسجد کے بنانے والے بھی ساتھ ھی مل گئے ۔

ایک اللہ والے کی زبان سے نکلی ہوئی سچی بات کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ بہت سے ہندوؤں نے بھی اسلام قبول کیا اور بعد میں اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے مسجد بھی بنائی۔کسی نے کیا ہی اچھی بات کہی ھے۔ 

جو  بھی دل سے سچائی کے راستہ پر چلتا رہتا ہے

 وھی کامیاب  ہے جو سچ  کے ساتھ‌ کھڑا رھتا ھے 

Share:

امتحان میں اچھے نمبروں کے لیے وظیفہ

ھر طالب علم اپنے امتحان میں شاندار کامیابی کا خواھشمند ھوتا ھے اور اس کے لئے وہ اپنے دماغ اور سوچ کے مطابق زیادہ سے زیادہ تگ و دو بھی کرتا ھے ۔لائق طلباء تو پڑھائی میں خوب محنت کرتے ھیں . پوری پوری رات پڑھنے میں مصروف رھتے ھیں اور پھر آچھے نتائج  بھی حاصل کر لیتے ھیں اور نالائق طلباء بھی اپنے انداز سے تیاری میں خوب لگے ھوتے ھیں مثلاً بوٹی بنانے اور اس کے محفوظ استعمال  کے نئے نئے طریقوں پر سوچ بچار کر رھے ھوتے ھیں ۔

اسی طرح بعض طالبِ علم شاٹ کٹ کے چکر میں رھتے ھیں اور تیاری سے زیادہ  امتحان میں اچھے نمبروں سےکامیابی کے لیے کسی سریع الاثر وظیفہ کی  تگ و دو  میں رھتے ھیں اور بزرگوں کے پاس جا جا کر عرض کرتے ھیں کہ حضرت صاحب ! مجھے  کوئی ایسا وظیفہ بتا دیں کہ امتحانی سینٹر میں جو ممتحن آیا ہوا ہو ، میں بس اُس ممتحن پر دم کردوں اور  نگرانی کے لیے اُس کا دل میرے لیے نرم ہو جائے ،  اور نظر بندی کے لیے بھی کوئی ایسا وظیفہ بتا دیں  جو میں اپنا پیپر مکمل کرنے  کے بعد اُس پیپر پر دم کردوں تاکہ جب میرا پیپر چیک ہو تو میری  غلطیاں پیپر چیک کرنے والے کو نظر  ھی نہ آئیں، اور وہ میرے نمبرز زیادہ لگا دے وغیرہ وغیرہ 

اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا  کہ مسنون دعاؤں اور ثابت شدہ وظائف کی تاثیر اپنی جگہ بالکل مسلّم  ہے، لیکن اللہ تعالی نے اس دنیا کو دار الاسباب بنایا ھے ۔ شریعتِ اسلامیہ  نے دنیا میں ہمیں رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ اسباب اور تدابیر اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے، اسباب اختیار  کیے بغیر،  محنت سے غافل ہوکر ، محض دعاؤں اور وظائف پر اکتفا کرکے کامیابی کا تصور  منشاءِ شریعت اور نظامِ فطرت کے موافق نہیں ہے،  اگر وظائف پڑھ کر ہی کامیابیاں حاصل کی جاتیں تو انبیاءِ کرام علیہم السلام دین کے لیے اتنی محنت و مشقت  نہ کرتے، دنیا میں رہتے ہوئے انسان اپنی استطاعت کے مطابق محنت کرنے کا مکلف ہے، تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ھے کہ  صرف اپنی محنت پر ھی بھروسہ کرنا شرعاً غلط ہے، حتی الوسع محنت کے ساتھ ساتھ خوب دعاؤں کا اہتمام انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ پاؤ بھر محنت ہو تو من بھر دعائیں بھی ھونی چاھیں ۔  بہرحال اسباق کی تیاری کے بغیر، اور محنت سے غافل ہوکر محض وظیفے یا دعا کے زور پر کامیابی کا تصور منشاءِ شریعت کے خلاف اور کھلی ھوئی بے وقوفی ہے، 

امتحان میں ممتحن کو رشوت دے کر یا کسی سفارش کی بنا پر یا پھر اُسے دھوکہ دے کر نقل کرکے پیپر مکمل کرنا کئی بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے اس لئے اس سے مکمل طور ہر اجتناب برتنا چاھیے اور اگر ممتحن کسی بھی وجہ سے خود امتحان میں کسی بھی طریقہ سے نقل کرنے میں طالب علم سے  تعاون کرے گا  تو طالب علم کے ساتھ ممتحن خود بھی ایک بہت بڑی خیانت کا مرتکب ہوگا، اور قیامت والے دن ممتحن اور طالبِ علم دونوں  عنداللہ جوابدہ ھوں گے۔  اور پرچے میں تحریر کردہ  غلطیوں کو کسی طرح بھی  چھپانے کی سعی و فکر کرنا، قطعاً مثبت سوچ نہیں ہے، اور یہ حقیقت  ھے کہ ایسا کوئی بھی وظیفہ نہیں ہے کہ جس کے کرنے سے پرچے پر  لکھی ھوئی غلطیاں پیپر چیک کرنے والے کو نظر ھی نہ آئیں 

لہذا طالبِ علم کو چاھیے کہ اول ان سب بُرے خیالات اور خوش فہمیوں کو ذہن سے  نکال دیں، اور پڑھائی میں  خوب خوب دل لگا کر محنت کریں، اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے خوب  خوب دعا مانگیں،  دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ مؤثر اور طاقت ور نہیں ہے، تاھم اگر وظیفہ بھی ضرور ھی پڑھنا ھے تو لیجیے حکیم الاُمت حضرت مولانا آشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کا بتایا ھوا مختصر سا وظیفہ حاضر ھے ، یقین کے ساتھ بلا تردد اسے  پڑھ سکتے ھیں ۔ ان شاء اللہ ضرور فائدہ ھو گا لیکن ایک بات آچھی طرح یاد رکھیں کہ کسی بھی  وظیفہ کی کامیابی کے لئے کچھ شرائط ھوتی ھیں ۔ ان شرائط میں پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرنا ھر وظیفہ کی شرطِ اوّل  ھے ورنہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں ھو گا ۔   

وظیفہ مندرجہ زیل ھے : 

یانَاصِرُ

ہر نماز کے بعداکیس مرتبہ پڑھیں اول و آخر تین تین مرتبہ درود شریف 

یَا عَلِیمُ

روزانہ فجر کی نمازکے بعد’’ 150مرتبہ پڑھیں اول و آخر تین تین مرتبہ درود شریف  اورامتحان کے روز اس کی کثرت کریں۔(ملفوظات اشرفیہ)

Share:

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ایک بڑھیا کی گٹھڑی اُٹھانے کا من گھڑت واقعہ

  بعض واعظین، نعت خوان  اور خطباء  اپنے بیانات میں ایک خود ساختہ واقعہ لوگوں کو بہت جوش و خروش سے کچھ اس طرح سناتے ھیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک غیر مسلم بڑھیا رھتی تھی،  جس نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی دعوت اسلام سے تنگ آکر مکہ مکرمہ سے نکل کر کہیں اور جانے کا فیصلہ کیا ، چنانچہ وہ اپنے سامان کی گٹھڑی سر پہ رکھے ،لاٹھی ٹیکتی راستے پر کسی مددگار کے انتظار میں کھڑی ہوگئی، تھوڑی دیر میں ایک خوبصورت جوان وھاں آتا ھے اور اس پڑھیا کو پوچھتا ہے اماں جی ! آپ کہاں جارہی ہیں؟ لائیے میں سامان اُٹھانے میں آپ کی مدد کروں، آپ گٹھڑی مجھے دے دیجئے، آپ جہاں جانا ھے ، میں آپ کو وہاں تک پہنچا آتا ہوں۔ بڑھیا کہتی ہے: بیٹا! سنا ہے مکہ شہر میں ایک بہت بڑا جادوگر آیا ہوا ہے جس کا نام محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) ہے، جو بھی اس سے ملتا ہے یا اس سے بات کرتا ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے، میں اسی کے ڈر سے یہ شہر چھوڑکر جارہی ہوں کہ کہیں ایسا نہ ھو وہ مجھ پر جادو کردے اور اس کے اثر سے میں اپنے آبائی مذہب اور معبودوں کو چھوڑ نہ بیٹھوں،  اس خوب صورت نوجوان نے اس بڑھیا کی گٹھڑی اپنے سر پر اٹھا کر اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیا اور سامان سر سے اتار کر  واپسی کی اجازت چاہی، تب بڑھیا  نے بہت دعائیں دیں اور کہا کہ: چہرے سے تو کسی اعلیٰ خاندان کے لگتے ہو، اور بہت نیک بیٹے  ہو، تم نے میری مدد کی ہے، میری نصیحت مانو تم بھی اس جادوگر سے بچ کر رہنا، ارے ہاں میں تمہارا نام تو پوچھنا بھول ہی گئی۔ بیٹا تمہارا کیا نام ہے؟ وہ جوان مسکرا کے کہتا ہے: اماں جی میرا نام ہی محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے۔۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی زبان مبارک یہ یہ کلمہ سن کر وہ بڑھیا فوراً مسلمان ہوگئی. 

یہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے، حدیث کی کسی کتاب میں بھی اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ۔ ایسے قصوں کے بیان کرنے سے اور اس کی نسبت نبئ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی طرف کرنے سے بچنا لازمی اور ضروری ہے ۔۔

یہ جاننا ضروری ھے کہ کچھ روایات ایسی ہوتی ہیں کہ کسی سند والی کتاب میں ان کا وجود  ہوتا ہے،پھر یا  تو ان کی سندصحیح ہوتی ہے یاضعیف یا موضوع و ومن گھڑت،  جبکہ کچھ بہت ہی مشہورومعروف روایات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہ کسی سند والی  کتاب میں نہیں ملتیں ۔ ، محدثین ایسی روایات کو ’’لااصل لہ‘‘ کہتے ہیں،یعنی بے بنیاد روایات ۔ 

اللہ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سیرت کے تعلق سے اکثر یہ دو واقعات سننے میں ملتے ہیں، ایک وہ بڑھیا جو اللہ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی اور دوسرا واقعہ اس بڑھیا کا قصہ ہے کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اسکا سامان اٹھایا اور اس نے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بارے میں برابھلا کہنا شروع کردیا پھر جب آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنا نام بتایا تو وہ بڑھیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے اخلاق کی وجہ سے مسلمان ہو گئی ، یہ دونوں واقعات کسی بھی حدیث کی مستند کتاب میں موجود نہیں ھیں بلکہ یہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایتیں ھیں  حدیث کی کسی کتاب میں بھی ان کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ۔ ایسے قصوں کے بیان کرنے سے اور اس کی نسبت نبئ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی طرف کرنے سے بچنا لازمی اور ضروری ہے ۔۔

اللہ پاک ھمیں محفوظ  رکھے

آمین یا رب العالمین


Share: