اپنی ایک اور دنیا
گذشتہ دنوں مانسہرہ اجتماع میں مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ کے حوالے سے جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اس سے دعوت و تبلیغ سے محبت کرنے والے ھر شخص کو بہت تکلیف پہنچی ھے ۔ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ ایک بلند مرتبہ عالم دین ھیں اور ھمارے سروں کے تاج ھیں ۔ واقعہ کچھ یوں ھوا کہ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتم اجتماع میں بیان کرنا چاھتے تھے لیکن ذمہ دار حضرات نے اس کی آجازت نہیں دی ۔ جس کے بعد ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ مولانا صاحب خاموشی سے واپس آجاتے اور رائیونڈ جا کر اپنی شکایات اکابرین کے سامنے رکھتے لیکن اس کے برعکس مولانا طارق جمیل حفظہ اللہ نے سوشل میڈیا پر آکر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اکابرین تبلیغ کے بارے ایسے الفاظ ادا کیےجو یقیناً اُن کی شان کی سراسر خلاف تھے اور مولانا صاحب کو اس طرح کے الفاظ ھرگز زیب نہیں دیتے تھے پھر سوشل میڈیا کے لونڈے لپاڑوں نے بھی اسے مرچ مسالا لگا کر خوب خوب آچھالا
سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آخر مولانا موصوف اجتماع میں بیان کیوں کرنا چاھتے تھے؟ اور ذمہ دار حضرات نے ایسا کیوں نہ کرنے دیا ؟ ۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ھے کہ ھمیشہ سے طریقہ کار یہ رھا ھے کہ جماعت کی طرف سے طے شدہ آصولوں کے مطابق اجتماع میں بیان کے لئے شوری حضرات کا مشورہ ھوتا ھے اس مشورہ میں بیان کرنے والوں کے نام طے کر لیے جاتے ھیں اور پھر طے ھونے والے بزرگ ھی بیان کرتے ھیں لیکن باھر کے کسی بھی عالم یا واعظ کو بیان نہیں دیا جاتا۔ یہ جماعت کا طے شدہ آصول ھے اور مولانا صآحب اس سے بخوبی واقف ھیں ۔ مولانا صآحب چونکہ جماعت کے آصول و ضوابط کی خلاف ورزی (مثلاً میڈیا کا استعمال ، سیاست میں دلچسپی وغیرہ وغیرہ ) کی بنا پر اب جماعت کی شوری کے رکن نہیں ھیں اس لئے ان کی طرف سے اجتماع میں بیان کرنے کے لئے اصرار کرنا ھی سراسر غلط تھا ۔ دعوت و تبلیغ کا کام خالصتاً اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیا جاتا ھے اس لئے اس کام میں شخصیتیں اھم نہیں ھوتیں بلکہ آصولوں پر عمل پیرا ھو کر دعوت و تبلیغ کے کام میں محنت کرنا اھم ھوتا ھے ۔ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مولانا صاحب کی وجہ سے تبلیغ کا کام سات براعظموں میں متعارف ھوا ھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ لاکھوں اللہ کے بندے اس محنت کو کر رھے ھیں اور دعوت و تبلیغ کا کام مولانا کی وجہ سے نہیں بلکہ مولانا صاحب تبلیغ کے کام کی برکت سے دنیا بھر میں متعارف ھوئےھیں ورنہ اُن کے بھائی بھی تو ھیں انہیں کوئی جانتا بھی نہیں
مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ ایک بلند پایہ عالمِ دین ، صاحبِ طرز واعظ ، عالمی مبلغِ اسلام اور باعمل داعیٔ دین ہیں۔ یقیناً ان کےسیاسی اور فکری ناقدین بھی ہوں گے،مگر ان کو پسند کرنے والوں کا بھی ایک بہت بڑا حلقہ ہے۔ تبلیغی بزرگوں کی ہدایات اور تحفظات کو بار بار وہ یہ کہہ کر نظر انداز کرتے رھے کہ “میری ایک اور دنیا بھی ہے" ظاھر ھے یہ دنیا میڈیا کی دنیا ہے، شوبز اور سپورٹس وغیرہ کی دنیا ہے۔ مقتدر لوگوں کی دنیا ھے ان کو متاثر کرنے پر قدرت رکھنےکا مولانا کوبڑا زعم اور اس پر ناز بھی ہے ۔ یقیناً “ البیان لسحر" کی خوبی بدرجۂ اتم اُن میں موجود بھی ھے لہذا اس طرح کے لوگوں کے لئے ان کابیان جادو اثر ہوسکتا ھے ۔
یہاں سوال تو یہ ھے کہ اگر حضرت والا کو جماعت کے آصول و ضوابط کی خلاف ورزی کی بنا پر اجتماع میں بیان کاموقع نہیں دیا جارہا تو اس میں حرج کی کیا بات ہے؟ ۔ مولانا صاحب اپنی اس دوسری دنیا کوٹائم دیں۔دعوت و تبلیغ کے کام کو الحمدُ للہ مخلص بندوں کی کوئی کمی نہیں یہاں تو بہت اللہ کے بندے موجود ہیں جو ان کی جگہ کام کرنےکےلئے تیار ھیں بلکہ کر بھی رھے ھیں ۔ مستقبل میں بھی انشاء اللہ کبھی بھی کوئی افرادی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ جبکہ اس دوسری دنیا میں تو چند گنے چنے افراد ھی موجود ھیں وہ بھی شاید مولانا صاحب کے مقابلےکی ھمت نہ رکھتے ھوں ، مولانا صاحب عالمی مبلغ اسلام ھیں لہذا وہیں اپنے مزاج کے مطابق بلا روک ٹوک کھل کر دعوتِ دین کا کام کریں، لوگوں میں محبت بانٹ کر ان کی اصلاح کریں۔ اور کافی حدتک وہ کر بھی رھے ھیں ۔مولانا صاحب کومیڈیا کی ضرورت واہمیت کابہت احساس وادراک ہے
اور مولانا طارق جمیل صاحب کے فالورز بھی 6 ملین (60 لاکھ) تک ہیں تو تبلیغی جماعت سمیت کسی بھی ادارے کی مولانا صاحب کو شاید اب ضرورت نہیں ھے ۔ مولانا صاحب سے چار گنا زیادہ یعنی 24 ملین فالورز رکھنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بھی تو اپنا کام شخصی بنیادوں پر ھی کررہے ہیں ۔اس طرح اور کئی مشہور مبلغین کااپنا اپنا حلقہ ہے اور اپنا اپنا مشن ۔ مولانا صاحب کو بڑے خاندان اور دولت کی فراوانی پر بھی فخر ہے جس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتے بھی رھتے ھیں ۔ یقیناً مولانا صاحب کو الحمدُ للہ وسائل کی کوئی کمی نہیں، ان کے پاس افرادی قوت بھی ھے پھر وہ دعوتِ دین میں اپنی متاثر کن شخصیت کی بنا پر ذاکر نائیک کی طرح اپنی صلاحیتوں کا لوھا منوا سکتے ھیں ۔
اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ مولانا صاحب حفظہ اللہ کا ایک بڑا مقام ھے دعوت و تبلیغ کے اعتبار سے بھی اور علمی قابلیت کے اعتبار سے بھی، لیکن یہ بھی ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ اس وقت تبلیغی جماعت کا کوئی نعم البدل دنیا میں موجود نہیں ھے لہذاحقیقت یہی ھے کہ دعوت و تبلیغ کے کام کو بندوں کی نہیں بلکہ بندوں کو خود دعوت و تبلیغ کے کام کی ضرورت ھے لہذا جو علماء کرام دعوت و تبلیغ کا یہ خصوصی پلیٹ فارم استعمال کرنا چاھیں گے یا کر رھے ھیں تو انہیں آصول و ضوابط کی بہرحال لازمی پابندی کرنا ھو گی بصورت دیگر عام لوگوں کی طرح تبلیغ کا کام کرنے پر تو مولانا سمیت کسی کے لئے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ، بےشک ساری زندگی کرتے رھیں اور اس صورت میں تبلیغ سے باھر ان کی زاتی زندگی میں کوئی پابندیاں بھی نہیں ھوں گی ۔
مولانا صاحب اگر دوبارہ اپنے ماضی کی طرف لوٹنا چاھتے ھیں تو اُن کے لئے واپسی کا راستہ آج بھی کھلا ھے کہ مولانا صاحب اپنی کوتاھیوں غلطیوں اور آصول و ضوابط کی خلاف ورزیوں پر کھلے دل سے اکابرینِ تبلیغ سے معذرت کر لیں اور ائندہ شکایت کا موقعہ نہ دینے کی اُنہیں یقین دھانی کروائیں اور میڈیا اور سیاست وغیرہ کے آلائشوں سے اپنے اپ کو پاک کرکے دوبارہ شوری میں واپس آجائیں اور ائندہ شوری کے آصول و ضوابط کی پابندی کریں اور باقی ماندہ زندگی اسی کام میں وھیں گزار دیں ۔ ان شاء اللہ اکابرینِ تبلیغ مولانا کا خیر مقدم کریں گے یہی مولانا صاحب کے لئے سب سے بہتر راستہ ھے اور اگر بالفرض وہ ایسا نہیں کرنا چاھتے تو پھر انہیں چاھیے کہ وہ تبلیغی مراکز کے کاموں میں مداخلت نہ کریں اور مراکز یا اجتماعات میں بیان کرنے کی اپنی خواھش کو خوش اسلوبی سے رضاکارانہ طور پر ترک کر دیں اور کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور تبلیغ کے اکابرین پر تنقید نہ کریں نہ ھی تبلیغ کے کام میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش کریں بلکہ وہ اس میدان میں اپنی توانائیاں صرف کریں جس سے ان کو زیادہ دلچسپی بھی ہے اور اس کی وہ اچھی خاصی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ھیں ۔
حضرت مولانا صاحب سے دردمندانہ آپیل ھے کہ وہ ان جھمیلوں اور باہمی تنازعات سے اپنے آپ کو الگ کر لیں اور جماعت کی طرف واپس لوٹ جائیں اور حسبِ سابق جماعت کی ترتیب پر دعوت و تبلیغ کے کام میں لگ جائیں ۔
وفقک اللہ لمایحب ویرضی۔