مانسہرہ کا اجتماع اور مولانا طارق جمیل حفظہ اللہ کا بیان

 اپنی ایک اور دنیا

گذشتہ دنوں مانسہرہ اجتماع میں مولانا طارق جمیل صاحب  حفظہ اللہ کے حوالے سے جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا  اس سے دعوت و تبلیغ سے محبت کرنے والے ھر شخص کو بہت تکلیف پہنچی ھے ۔ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب  حفظہ اللہ ایک بلند مرتبہ عالم دین ھیں اور ھمارے سروں کے تاج ھیں ۔ واقعہ کچھ یوں ھوا کہ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتم اجتماع میں بیان کرنا چاھتے تھے لیکن ذمہ دار حضرات نے اس کی  آجازت نہیں دی ۔ جس کے بعد ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ مولانا صاحب  خاموشی سے واپس آجاتے اور رائیونڈ جا کر اپنی شکایات اکابرین کے سامنے رکھتے لیکن اس کے برعکس مولانا طارق جمیل حفظہ اللہ نے سوشل میڈیا پر آکر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اکابرین تبلیغ کے بارے ایسے الفاظ ادا کیےجو یقیناً اُن کی شان کی سراسر خلاف تھے اور مولانا صاحب کو اس طرح کے الفاظ ھرگز زیب نہیں دیتے تھے پھر سوشل میڈیا کے لونڈے  لپاڑوں نے بھی اسے مرچ مسالا لگا کر خوب خوب آچھالا

سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آخر مولانا موصوف اجتماع میں بیان کیوں کرنا چاھتے تھے؟  اور ذمہ دار حضرات نے ایسا کیوں نہ کرنے دیا ؟  ۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ھے کہ ھمیشہ سے طریقہ کار یہ رھا ھے کہ جماعت کی طرف سے طے شدہ آصولوں کے مطابق اجتماع میں بیان کے لئے شوری حضرات کا مشورہ ھوتا ھے اس مشورہ میں بیان کرنے والوں کے نام طے کر لیے جاتے ھیں اور پھر طے ھونے والے بزرگ ھی بیان کرتے ھیں لیکن  باھر کے کسی بھی عالم یا واعظ کو بیان نہیں دیا جاتا۔ یہ جماعت کا طے شدہ آصول ھے اور مولانا صآحب  اس سے بخوبی واقف ھیں ۔ مولانا صآحب چونکہ جماعت کے آصول و ضوابط  کی خلاف ورزی (مثلاً میڈیا کا استعمال ، سیاست میں دلچسپی وغیرہ وغیرہ ) کی بنا پر اب جماعت کی شوری کے رکن نہیں ھیں اس لئے ان کی طرف سے اجتماع میں بیان کرنے کے لئے اصرار کرنا ھی سراسر غلط تھا  ۔ دعوت و تبلیغ کا کام خالصتاً اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیا جاتا ھے اس لئے اس کام میں شخصیتیں اھم نہیں ھوتیں بلکہ آصولوں پر عمل پیرا ھو کر دعوت و تبلیغ کے کام میں محنت کرنا اھم ھوتا ھے ۔ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مولانا صاحب کی وجہ سے تبلیغ کا کام سات براعظموں میں متعارف ھوا ھے  جبکہ حقیقت یہ ھے کہ لاکھوں اللہ کے بندے اس محنت کو کر رھے ھیں اور دعوت و تبلیغ کا کام مولانا  کی وجہ سے نہیں بلکہ مولانا صاحب تبلیغ کے کام کی برکت سے دنیا بھر میں متعارف  ھوئےھیں  ورنہ اُن کے بھائی بھی تو ھیں انہیں کوئی جانتا بھی نہیں 

مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ ایک بلند پایہ عالمِ دین ، صاحبِ طرز واعظ  ، عالمی مبلغِ اسلام اور باعمل  داعیٔ دین ہیں۔ یقیناً ان کےسیاسی اور فکری ناقدین بھی ہوں گے،مگر ان کو پسند کرنے والوں کا بھی ایک بہت بڑا حلقہ ہے۔ تبلیغی بزرگوں کی ہدایات اور تحفظات کو بار بار وہ یہ کہہ کر نظر انداز کرتے رھے کہ “میری ایک اور دنیا بھی ہے"  ظاھر ھے یہ دنیا میڈیا کی دنیا ہے، شوبز اور سپورٹس وغیرہ کی دنیا ہے۔ مقتدر لوگوں کی دنیا ھے  ان کو متاثر کرنے پر قدرت رکھنےکا مولانا کوبڑا زعم اور اس پر ناز بھی ہے ۔ یقیناً “ البیان لسحر" کی خوبی بدرجۂ اتم اُن میں موجود بھی ھے لہذا اس طرح کے  لوگوں کے لئے  ان کابیان جادو اثر ہوسکتا ھے ۔

 یہاں سوال تو یہ ھے  کہ اگر حضرت والا کو جماعت کے آصول و ضوابط کی خلاف ورزی کی بنا پر اجتماع  میں بیان کاموقع نہیں دیا جارہا تو اس میں   حرج کی کیا بات  ہے؟ ۔ مولانا صاحب اپنی اس دوسری دنیا کوٹائم دیں۔دعوت و تبلیغ کے کام کو الحمدُ للہ مخلص بندوں کی کوئی کمی نہیں یہاں تو بہت اللہ کے بندے موجود ہیں جو ان کی جگہ کام کرنےکےلئے تیار ھیں بلکہ کر بھی رھے ھیں ۔ مستقبل میں بھی انشاء اللہ کبھی بھی کوئی افرادی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ جبکہ اس دوسری دنیا میں تو چند گنے چنے افراد ھی موجود ھیں وہ بھی شاید مولانا صاحب کے مقابلےکی ھمت نہ رکھتے ھوں  ، مولانا صاحب عالمی  مبلغ اسلام ھیں لہذا وہیں اپنے مزاج کے مطابق بلا روک ٹوک کھل کر دعوتِ دین کا کام کریں، لوگوں میں محبت بانٹ کر ان کی اصلاح کریں۔ اور کافی حدتک وہ کر بھی رھے ھیں ۔مولانا صاحب کومیڈیا کی ضرورت واہمیت کابہت احساس وادراک ہے

اور مولانا طارق جمیل صاحب کے فالورز بھی 6 ملین (60 لاکھ) تک ہیں تو تبلیغی جماعت سمیت کسی بھی ادارے کی مولانا صاحب کو شاید اب ضرورت نہیں ھے ۔ مولانا صاحب سے چار  گنا زیادہ یعنی 24 ملین فالورز رکھنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بھی تو اپنا کام شخصی بنیادوں پر ھی کررہے ہیں ۔اس طرح اور کئی مشہور مبلغین کااپنا اپنا حلقہ ہے اور اپنا  اپنا مشن ۔ مولانا صاحب کو بڑے خاندان اور دولت کی فراوانی پر بھی فخر ہے جس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتے بھی رھتے ھیں ۔  یقیناً مولانا صاحب کو الحمدُ للہ وسائل کی کوئی کمی نہیں، ان کے پاس افرادی قوت  بھی ھے پھر وہ دعوتِ دین   میں اپنی  متاثر کن شخصیت کی بنا پر ذاکر نائیک کی طرح اپنی صلاحیتوں کا لوھا منوا سکتے ھیں ۔ 

اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ مولانا صاحب  حفظہ اللہ کا ایک بڑا مقام ھے دعوت و تبلیغ کے اعتبار سے بھی اور علمی قابلیت کے اعتبار سے بھی،  لیکن یہ بھی ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ اس وقت تبلیغی جماعت کا کوئی نعم البدل دنیا میں موجود نہیں ھے  لہذاحقیقت یہی ھے کہ دعوت و تبلیغ  کے کام  کو بندوں کی نہیں بلکہ بندوں کو خود دعوت و تبلیغ کے کام کی ضرورت ھے لہذا جو علماء کرام دعوت و تبلیغ کا یہ خصوصی پلیٹ فارم استعمال کرنا چاھیں گے یا کر رھے ھیں تو انہیں آصول و ضوابط کی بہرحال لازمی پابندی کرنا ھو گی بصورت دیگر عام لوگوں کی طرح تبلیغ کا کام کرنے پر تو مولانا سمیت کسی کے لئے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ، بےشک ساری زندگی کرتے رھیں اور اس صورت میں تبلیغ سے باھر ان کی  زاتی زندگی میں کوئی پابندیاں بھی نہیں ھوں گی ۔ 

مولانا صاحب اگر دوبارہ اپنے ماضی کی طرف لوٹنا چاھتے ھیں   تو اُن کے لئے واپسی کا راستہ آج بھی کھلا ھے کہ مولانا صاحب اپنی کوتاھیوں غلطیوں اور آصول و ضوابط  کی خلاف ورزیوں پر کھلے دل  سے اکابرینِ تبلیغ  سے معذرت کر لیں اور ائندہ شکایت کا موقعہ نہ دینے کی اُنہیں یقین دھانی کروائیں  اور میڈیا اور سیاست وغیرہ کے آلائشوں سے اپنے اپ کو پاک کرکے دوبارہ شوری میں واپس آجائیں اور  ائندہ شوری کے آصول و ضوابط کی پابندی کریں اور باقی ماندہ  زندگی اسی کام میں وھیں گزار دیں ۔ ان شاء اللہ اکابرینِ تبلیغ مولانا کا خیر مقدم کریں گے یہی مولانا صاحب کے لئے سب سے بہتر راستہ ھے اور اگر بالفرض  وہ ایسا نہیں کرنا چاھتے تو پھر انہیں چاھیے کہ وہ تبلیغی مراکز کے کاموں میں  مداخلت نہ کریں اور مراکز یا اجتماعات میں بیان کرنے  کی اپنی خواھش کو خوش اسلوبی سے رضاکارانہ طور پر ترک کر دیں اور کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور تبلیغ کے اکابرین پر تنقید نہ کریں نہ ھی تبلیغ  کے کام میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش کریں بلکہ وہ اس میدان میں اپنی توانائیاں صرف کریں جس سے ان کو زیادہ دلچسپی بھی ہے اور اس کی وہ اچھی خاصی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ھیں ۔ 

حضرت مولانا صاحب سے دردمندانہ آپیل  ھے کہ وہ  ان  جھمیلوں اور باہمی تنازعات سے اپنے آپ کو الگ کر لیں اور جماعت کی طرف واپس لوٹ جائیں  اور حسبِ سابق جماعت کی ترتیب پر دعوت و تبلیغ کے کام میں لگ جائیں ۔ 

وفقک اللہ لمایحب ویرضی۔

Share:

فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والوں کا بھیانک آنجام

 فحاشی، عریانی، جنسی اشتعال انگیزی جیسے جرائم کا ارتکاب کرنا نہ صرف کھلی ھوئی برائی ہے بلکہ بہت ساری برائیوں اور بیماریوں کا سبب بھی ھے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ فحاشی کو فروغ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اُمت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانان پاکستان جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں وہ پوری دنیا جانتی ہے۔ وطن عزیز میں قتل و غارت گری، لوٹ مار، کرپشن، مہنگائی، سیلاب، طوفان، بے پردگی، بے حیائی جیسی  بہت سی  پریشانیاں موجود ھیں ۔  حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ھے کہ اگر کوئی قوم بے حیائی میں مبتلا ہو کر کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنے لگے تو اس قوم میں طاعون اور وہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کا نام ماضی میں نہ سُنا گیا ہو‘‘ (سنن ابن ماجہ)۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں  فحاشی و عریانی پھیلانے والے لوگوں کے لئے دردناک عذاب کی جو وعید سنائی ھے یہ دردناک عذاب ان لوگوں کو  دنیا میں بھی مختلف طریقوں سے ملتا رھے  گا اور آخرت  کا عذاب تو بہرکیف بہت ھی سخت ھو گا لہذا ارشادِ باری تعالی ھے 

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(19)

جولوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومندرہتے ہیں ان کے لیے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہیں ۔اللہ سب کچھ جانتا ہے اورتم کچھ بھی نہیں جانتے(سورة النور 19)

مسلم معاشرے میں ہمیشہ نیک عادات کا چلن ہوناچاہیے تاکہ معاشرہ پاکیزہ رجحانات کا حامل بن سکے ،جھوٹی خبر کی اشاعت، بے حیائی کی طرف دعوت اور معاشرے میں بُرے رجحانات کی تبلیغ اس قدر مذموم حرکات ھیں  کہ اللہ رب العالمین نے ایسے لوگوں کو دنیا  اورآخرت میں دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرے میں جب برے رجحانات عام ہوں گے تو معاشرہ انارکی کا شکارہوگا ، برائیاں سر چڑھ کر بولیں گی ، بے حیائی اور بدکاری کا دور دورہ ہوگا اور اس طرح پورا معاشرہ ھی بُری طرح ہلاکت کا شکار ہوجائے گا ۔

آیت مبارکہ کے ظاہری الفاظ فحاشی پھیلانے کی تمام صورتوں پر محیط ہیں ۔ جو لوگ پاک دامن مردوں اور عورتوں کی عفت داغدارکرنے کے لیے ان پر تہمت لگاتے ہیں ، جولوگ جنسی انارکی کو ہوا دینے کے لیے بدکاریوں اور گانے بجانے کے اڈے قائم کرتے ہیں ، جولوگ شہوات کو بھڑکانے والے قصے ،کہانیوں ، گانوں اور کھیل تماشوں پر مشتمل پروگرام تیار کرتے ،اس قبیل کے رسالے اور لٹریچر شائع کرتے ہیں

جولوگ کلبوں اورہوٹلوں میں رقص وسرود کی محفلیں سجاتے ھیں اور مخلوط تفریحات کا انتظام کرتے ہیں جولوگ اخبارات ، ریڈیو، ٹی وی اورفلمی ڈراموں وغیرہ کے ذریعہ بے حیائی پھیلارہے ہیں اورگھر گھر اسے پہنچارہے ہیں جو لوگ اپنے گھروں میں آلاتِ موسیقی اور  ٹی وی وغیرہ لاکر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اہل خانہ اس سے بے حیائی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جو لوگ اپنی دکانوں میں فحش لٹریچر، فحاشی کا سبب بننے والے آلات  مثلاً  ٹی وی یا اس قبیل کی دوسری چیزیں  ، مخرب اخلاق رسالے ،سی ڈیز ،ویڈیوز ، اورنشہ آوراشیاء  وغیرہ فروخت  کرتے ہیں ۔

قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق یہ سارے لوگ بہت بڑے مجرم ہیں اوریہ سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جن کو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی سزا ملتی ھے کہ ان کی بے حیائی خود ان تک محدودنہیں بلکہ یہ مسلم معاشرے میں بھی بدکاری اوربداخلاقی کوفروغ دینے کا موجب بن رہی ہے۔

پھر اس طرح کی حرکات کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں پہنچتے ہیں ، انفرادی اوراجتماعی زندگی میں کتنے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں ،کتنے گھروں میں بداخلاقی کا چلن ہوتا ہے ،کتنے گھر بربادہوتے ہیں اس کا صحیح اندازہ کرنا تو مشکل ھے کیونکہ اس کا علم صرف اللہ تعالٰی ہی کو ہے ۔ اس لیے ھماری ذمہ داری ھے کہ ھم اللہ تعالٰی کے احکام پر یقین کریں اور جن برائیوں کی وہ نشاندہی کر رھے ھیں ان سے خود بھی  بچیں اور مسلم معاشرے کو بچانے کی بھی  پوری کوشش کریں۔  یہ ظاہر میں تو معمولی برائی لگتی ہے لیکن اس کے اثرات دنیا و آخرت میں  انتہائی خطرناک ہیں ۔

اللہ تبارک  تعالٰی ہماری کمی کوتاہیوں اور لغرزشوں کو معاف فرمائے۔   ( آمین) ۔ کتاب اللہ (قران مجید ) کی مذکورہ بالا آیت کریمہ اپنے اندر جس قدر وسیع مضمون رکھتی ھے اگر اس آیت پہ تدبر کیا جائے تو آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے اور طبقے کا شاید ہی کوئی ایسا شخص ھو جو کسی نہ کسی درجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ اس آیت مبارکہ کی زد میں نہ آتا ھو۔ لہذا اولاً تو ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور ایسی تمام باتوں اور حرکات و سکنات سے خود کو بچانا چاہیے کہ جو فواحش کے پھیلانے کے زمرے میں آتی ھیں اور پھر اسکی روک تھام کے لئے اپنی اپنی جگہ ہر ہر فرد  کو اپنا اپنا مثبت کردار اور ذمہ داری  بھی بھرپور اور احسن انداز سے ادا کرتے رہنا چاہیے

Share:

امامِ آعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا صبر اور اس کا نتیجہ

 *امامِ آعظم حضرت ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ امام صاحب رحمة اللہ علیہ سنت کے مطابق تین دن تک تعزیت کے لیے آنیوالوں کےلیے اپنے گھر میں ٹھرے رہے ۔ تین دن گزرنے کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ گھر سے باہر نکل کر باھر  آگئے ۔

‏ایک شخص آپ رحمة اللہ علیہ کا سخت مخالف تھا وہ آپ رحمة اللہ علیہ سے بہت زیادہ حسد کیا  کرتا  تھا اور آپ رحمة اللہ علیہ کو پریشان کرنے کا کوئی موقعہ ھاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا  اور یہ بات  تمام اھل علاقہ بھی جانتے  تھے  جب آپ رحمة اللہ علیہ گھر سے باہر نکلے تو چوک میں بہت سارے لوگ جمع ھو گئےتھے،  وہ مکار شخص بھی سامنے سے تیزی کے ساتھ آیا اور  “السلام علیکم “ کہنے کے بعد بولا ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ)! سنا ہے آپ کے والد صاحب انتقال کر گئے ہیں؟" امام صاحب رحمة اللہ علیہ نے ‏فرمایا " ہاں"  ۔کہنے لگا پھر آپ اپنی ماں کا نکاح میرے ساتھ کر دو”الله اکبر” ایسا سخت جملہ کہ وہ انسان کے دل میں سوراخ کر دے ،  انسان اس تکلیف سے سو بھی نہیں پاتا.‏ لیکن امام صاحب رحمة اللہ علیہ صبر و تحمل کے ساتھ کھڑے رہے، جملہ یقیناً بہت  سخت تھا لیکن چونکہ بات تو بہرحال شرعی تھی، غیر شرعی تو نہیں تھی۔  آس وقت امام صاحب رحمة اللہ علیہ کے ساتھ جو شاگرد اور عقیدت مند تھے وہ سخت غصے میں تھے بعض نے تو اپنی تلواریں بھی نیام سے نکال لی تھیں ۔ 

*‏امام صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا " رک جاؤ، میرے ساتھ میرا اللہ ہے، میں کوئی لاوارث تو نہیں ہوں۔

*‏حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ساری ہمت سمیٹی، آنکھوں میں آنسو جو چمکے تھے ان کو بھی صبر و تحمل سے اپنے دامن میں سمیٹ لیا،  اور پوری ھمت جمع کر کے اُس شخص کو کہنے لگے 

"*‏میاں تم نے کہا ہے "میں اپنی ماں کا نکاح تیرے ساتھ کر دوں تو سنو میری ماں عاقلہ بالغہ ھے  اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ھے تو عدت گزر لینے دے میں تیرا نام لے کے اپنی ماں  سے بات کروں گا اگر وہ تیرے ساتھ نکاح کرنے کے لئے راضی ھو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ھوگا ۔ یہ کہہ کے امام صاحب رحمة اللہ علیہ اپنے  عقیدتمندوں کے بازو تھامے اگے تشریف لے گئے۔ آپ رحمة اللہ علیہ کے وھاں سے جانے کے بعد وہ بندہ آچانک دھڑام سے زمین پہ گرا اور فوراً اُس کی روح پرواز کر گئی ۔

‏لوگوں نے آکر امام صاحب رحمة اللہ علیہ کو بتایا اور پوچھا "حضور! اسے کیا ہوا ھے  امام صاحب رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے "اس نے سمجھا تھا کہ میں لاوارث ہوں، ‏اسے اور کچھ نہیں ہوا، درآصل ابو حنیفہ کے صبر نے اس کی جان لے لی ہے۔ کئی دفعہ لوگ دوسروں کو بہت سخت جملے کہہ دیتے ہے جن سے مخاطب شخص کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ حسد  بہت بری چیز ہے،  اس کے شر سے اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ فرمائے، آمین

*بحوالہ، کتاب : "امام اعظم ابو حنیفہؒ کی سیرت و تاریخ"۔ صفحہ نمبر ۱۲۵۔۔۔*

اگر امام ابوحنیفہ رحمة اللّٰہ علیہ کا صبر ان کے دشمن کی جان لے سکتا ہے تو  ان شاء اللہ میرے فلسطین کے بھائیوں اور بہنوں کا صبر بھی ایک نہ ایک دن ضرور اسرائیل کے ناپاک وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا ۔ 

آمین یا رب العالمین

Share:

موت کے بعد انسان کی آرزوئیں

 انسان کا اس دنیا میں قیام بالکل عارضی ھے اور یہاں سے اسے ھر صورت عالم آخرت کی طرف جانا ھے  جو اس کی ھمیشہ ھمیشہ رھنے کی جگہ ھے ۔ اگر یہ آخرت کی تیاری کرکے جائےگا تو وھاں خوش و خرم رھے گا اور اگر تیاری کے بغیر  جائے گا تو وھاں جا کر پشیمان ھو گا اور پھر مختلف آرزوئیں کرے گا جن کا ذکر قرآن پاک میں درج زیل مختلف  مقامات ہر کیا گیا ھے 

*1۔ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا

 *ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭة النبأ‏  40#)


 2- يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي* 

*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ‏( ﺍﺧﺮﯼ ‏) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ #24


*3- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ

*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)


*4۔ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #28 )


*5۔ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍلله ﺍﻭﺭ اس کے ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66


*6۔ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)


*7۔ يَالَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73‏


*8۔ يَالَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ٹھہرﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)


يَالَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِين

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ #27)

حقیقت یہ ھے کہ انسان کو اس دنیا میں آخرت کی تیاری کے لئے موقعہ دیا گیا ھے اگر وہ اس دنیاوی زندگی کو اللہ تعالی  اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ھوئے طریقوں ہر گزار کر عالم آخرت میں جائے گا تو اُسے وھاں کوئی پشیمانی یا پچھتاوہ نہیں ھو گا لیکن اگر اُس نے زندگی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ھوئے طریقوں کے خلاف گزاری ھو گی تو اُسے وھاں پچھتاوے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ھو گا  اور پھر یہ  وھاں مختلف ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ  کرے گا جن کا ذکر قرآن پاک کی آیات بالا میں کیا گیا ھے لیکن ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ان آرزوؤں کا ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ھو گا ۔ 

رب کریم ہماری آخرت کی  منزلوں کو آسان فرمائے اور اللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ھوئے طریقوں کو ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ان پر ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎئے۔

*آﻣِﻴﻦ ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ*

Share:

حج کی شرائط، فرائض ، واجبات اور سنن



 حج کی شرائط 

حج کی شرائط  تين طرح کی ہیں:


1:شرائطِ وجوب

یعنی وہ شرائط جن کی وجہ سے حج واجب ہوجاتا ہے، ایسی شرائط مندرجہ ذیل ہیں : مسلمان ہونا، عاقل ہونا ،بالغ ہونا، آزاد ہونا، حج کا وقت ہونا، سفر کےخرچ پر قادر ہونا(یعنی دوران سفر اور واپسی لوٹنے تک اپنے خرچ کے ساتھ ساتھ اپنے  اہل و عیال کے نان نفقہ کی ادائیگی پر بھی  قادر ہو) ، سواری پر قادر ہونا۔


2:شرائطِ وجوب اداء

یعنی حج کے فرض ہو جانے کی وہ شرائط جن کے پائے جانے کی  وجہ سے حج کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے،ایسی شرائط مندرجہ ذیل ہیں: بدن کا تندرست ہونا،حج پر جانے سے کسی ظاہری رکاوٹ کا نہ ہونا، راستہ کا پُر امن ہونا، اگر حج کرنے والی عورت ہو تو اسکا عدت میں نہ ہونا، عورت کے ساتھ شوہر یا کسی محرم کا ہونا۔


3:شرائطِ صحت

 یعنی وہ شرائط جنکی وجہ سے حج کی ادائیگی درست ہوجاتی ہے، ایسی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:حج کا احرام ہونا (یعنی حج کی نیت ہونا)، وقت مخصوص یعنی ایام حج کا ہونا، مکان مخصوص کا ہونا، مسلمان ہونا۔


فرضیتِ حج

زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر حج  کی آدائیگی فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے: « لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چنانچہ حج ادا کرو»، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  نے سوال کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! کیا ہر مسلمان پر ہر سال حج فرض ہے؟" تو رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاموش ہو گئے، دوبارہ سہ بارہ یہی سوال کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: «اگر میں ہاں کہہ دیتا تو واقعی فرض ہوجاتا اور ایسا تم لوگ نہیں کرپاتے»، پھر کہا «جتنا میں کہوں اتنا سنو، اس سے آگے نہ پوچھو


حج تمتع اور حج قران کرنے والوں کے لئے حج سے پہلے حج کے مہینوں میں عمرہ  کرنا ضروری ھے


عمرہ کے فرائض 

عمرہ کے دو فرض ہیں:


1:عمرہ کا احرام باندھنا

یعنی مردوں کے لیے دو صاف چادر زیب تن کرنے کے بعد احرام کی نیت کرنا اور تلبیہ پڑھنا۔ (خواتین سلے ہوئے کپڑوں میں ہی احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھیں۔)


2  بیت اللہ کا طواف کرنا

یعنی مسجدِ حرام میں داخل ہونے کے بعد حجر اسود کو استلام کرنے کے بعد بیت اللہ کے سات چکر لگانا۔

فرض چھوٹ جانے سے عمرہ ادا نہیں ہوگا۔


عمرہ کے واجبات

عمرہ کے دو واجبات ہیں


 صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا

صفا اور مروہ کے درمیان اس طرح چکر لگانا کہ صفا سے شروع کرکے مروہ تک ایک چکر پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر لگانا اسی طرح سات چکر ہورے جرنا


حلق یا قصر کروانا 

مردوں کے لیے افعالِ عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد سر منڈوانا  یا کم از کم چوتھائی سر کے بال ایک پور کے برابر چھوٹے کروانا۔ ملحوظ رہے کہ سر کے چند بال کاٹ لینے سے معتمر نہ احرام سے نکلتا ہے اور نہ ہی واجب ادا ہوتا ہے۔ 

خواتین کے لیے حلق نہیں ہے، وہ عمرے کے بعد کم از کم چوتھائی سر کے بال ایک پور کے برابر چھوٹے کریں


حج کے فرائض

حج میں تین چیزیں فرض ہیں:


احرام باندھنا یعنی نیت کرنا


مرد دو ان سلی چادریں میقات یا میقات سے پہلے باندھ کر نیت کریں گے اور عورتیں سلے ھوئے کپڑوں میں ھی احرام کی نیت  کریں  گی


 وقوفِ عرفات کرنا 

 میدان عرفات میں  نو ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے وقت سے  دس ذی الحجہ کی صبح صادق تک کسی وقت ٹھہرنا، اگرچہ ایک لمحہ کے لیے کیوں نہ ھو 


طوافِ زیارہ کرنا 

 دس ذی الحجہ سے بارہ ذی الحجہ تک  کسی تاریخ کو بیت اللہ کا طواف کرنا


حج کے واجبات 

(١) مزدلفہ میں وقوف کے وقت ٹھہرنا

(٢) رمی جمار(شیطان کو کنکریاں مارنا)

 (٣) حلق یعنی سر کے بال منڈوانا یا قصر یعنی سر کے بال کتروانا

(۴) صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا

(۵) آفاقی یعنی میقات سے باہر رہنے والے کو طواف وداع کرنا

(۶)  حجِ قران اور حج تمتع کرنے والے کے لیے قربانی کرنا 


 حج کی سنتیں 

(۱) مفرد آفاقی اور قارن کو طواف قدوم کرنا

 (۲) طواف قدوم یا طواف زیارہ میں مردوں کا  رمل اور اضطباع کرنا

 (۳)آٹھویں ذی الحجہ کی صبح کو منی کے لیے روانہ ہونا اور وہاں پانچوں نمازیں پڑھنا

 (۴)نویں ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد منی سے عرفات کے لیے روانہ ہونا

 (۵)عرفات سے غروب آفتاب کے بعد امام حج سے پہلے روانہ نہ ہونا

 (۶)عرفات سے واپس ہوکر رات کو مزدلفہ میں ٹھہرنا

 (۷)عرفات میں غسل کرنا

 (۸)ایام منی میں رات کو منی میں رہنا:



Share:

آقسامِ حج اور حجِ تمتع کی تعریف اور طریقہ

 

آقسامِ حج

حج کی مندرجہ زیل تین قسمیں ہیں:

حجِ آفراد ، حجِ تمتع اور حجِ  قِران


حجِ افراد 

یعنی حج کے دنوں میں صرف حج کی ادائیگی کے لیے احرام باندھنا اورعمرہ نہ کرنا ، اس میں قربانی واجب نہیں بلکہ اگر کر لے تو مستحب ھے ۔ جو شخص یہ حج کرے اسے ’’مفرد ‘‘ کہتے ہیں۔


حجِ تمتع 

ایک ہی سفر میں پہلے عمرے کا احرام باندھے ۔ طواف و سعی کے بعد حلق کر کے اس احرام سے فارغ ہو جائے ۔ پھر حج کا وقت آئے تو حج کا احرام باندھے ۔ کیوں کہ ایک ہی سفر میں دو عبادتیں جمع کر نے کا فائدہ اٹھا لیا، اس لیے  اسے ’’حج تمتع‘‘  کہتے ہیں اور حج تمتع کرنے والے کو ’’متمتع‘‘ کہتے ہیں اور اس پر شکرانے کی قربانی واجب ہوتی ہے۔  پاکستانی عازمینِ حج عموماً حج ِتمتع ہی کرتے ہیں۔


حجِ قران 

 ایک ساتھ ہی حج و عمرہ کا احرام باندھا ،پہلے عمرہ کے ارکان ادا کیے، لیکن عمرے کی سعی کے بعد حلق یا قصر نہیں کیا، بلکہ طوافِ قدوم اور حج کی سعی کرنے کے بعدبدستور حالتِ احرام میں رہا، یہاں تک کہ ایامِ حج میں حج کے ارکان ادا کر کے حلق یا قصرکرایا اور احرام سے فارغ ہوا۔ حجِ قران کرنے والےپر بھی قربانی واجب ہوتی ہے۔ چوں کہ اس میں ایک ہی سفر میں ایک ہی احرام میں حج اور عمرہ کو جمع کرنا ہے، اس لیے اسے ’’قران‘‘ کہتے ہیں، اور  جو شخص یہ حج کرے اسے ’’قارِن‘‘ کہتے ہیں۔


قربانی

واضح رہے کہ حجِ قران اور حجِ تمتع کرنے والے پر قربانی واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بطورِ شکر حج کی قربانی ہے، اگر متمتع یا قارن صاحبِ حیثیت ہو اور قربانی (عیدالاضحیٰ) کے ایام میں مقیم ہو، (مسافر نہ ہو) تو اس پر عیدالاضحیٰ کی قربانی اس کے علاوہ واجب ہوگی۔


 چونکہ ایشیائی عازمینِ حج عموماً حج ِتمتع ہی کرتے ہیں۔ اس لئے اس کا قدرے تفصیلی طریقہ زیل میں لکھا جا رھا ھے ۔ 


حجِ تمتع

تمتع  کی تعریف 

تمتع"  کے لغوی معنیٰ ہیں ’’کچھ وقت تک فائدہ اٹھانا‘‘ ۔ حج تمتع یہ ہے کہ آدمی ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج  ساتھ ساتھ کرے، لیکن اس طرح کہ دونوں کے احرام الگ الگ باندھے، اپنے وطن سے صرف عمرے کا احرام باندھ کر جائے اور عمرہ کر لینے کے بعد احرام کھول کر ان ساری چیزوں سے فائدہ اٹھائے جو احرام کی حالت میں ممنوع ہو گئی تھیں، پھر حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے، اس حج  میں چوں کہ  عمرہ اور  حج کی درمیانی مدت میں احرام کھول کر حلال چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا کچھ وقت مل جاتا ہے (بر خلاف حجِ قران کے  کہ اس میں حج اور عمرہ کے درمیان احرام کھولنے کی سہولت حاصل نہیں ہوتی ) ؛ اس لیے اس حج کو "حجِ تمتع" کہتے ہیں۔


حج تمتع کرنے کا طریقہ

 حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا 

میقات یا اس سے پہلے  عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے مہینوں (یعنی شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے حج سے پہلے کے آیام ) میں عمرہ کیا جائے، عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ آکر طواف کرے، یعنی بیت اللہ کے سات چکر لگائے، ہر چکر حجر اسود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے، ہر چکر کے شروع میں حجر اسود کا استلام کرے اور ساتویں چکر سے فارغ ہو کر آٹھویں مرتبہ حجر اسود کا استلام کرے ( استلام کا مطلب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دیا جائے اور اگر براہِ راست بوسہ دینا ممکن نہ ہو تو ہاتھوں کے ذریعہ سے حجر اسود کو چھو کر اپنے ہاتھوں کا بوسہ لیا جائے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو یا حالتِ احرام میں حجر اسود پر لگی خوشبو لگنے کا اندیشہ ہو تو دور سے حجر اسود کی طرف ہاتھوں سے اشارہ کر کے پھر ہاتھوں کا بوسہ لیا جائے)، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجبِ طواف  ہے، لہٰذا اگر مکروہ وقت نہ ہو تو اسی وقت پڑھے، ورنہ مکروہ وقت ختم ہونے کے بعد پڑھے، یہ دو رکعت کعبہ کی طرف منہ کر کے مقامِ ابراہیم کو سامنے لے کر پڑھے، (اگر مقامِ ابراہیم کے قریب رش زیادہ ہو تو مسجدِ حرام میں کسی بھی جگہ ادا کرلے) پھر زم زم پی کر سعی کے لیے جائے اور جانے سے پہلے حجر اسود کا نویں مرتبہ استلام کرنا بھی مسحب ھے، سعی صفا سے شروع کرے مروہ تک ایک چکر، پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر، اسی طرح سات چکر لگائے، اس کے بعد  دو رکعت پڑھے،(یہ دو رکعت ادا کرنا مستحب ہے، واجب نہیں، اگر یہ دو رکعت ادا نہیں کیں تو بھی عمرہ مکمل ہوگیا، ان کے چھوڑنے پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا، نہ ہی کراہت لازم آئے گی) اس کے بعد حلق  یا کسر کروائے، یہ عمرہ مکمل  ہو گیا ، اب احرام کھول دے اور اپنے عام کپڑوں میں رہے، کیوں کہ احرام کی پابندیاں ختم ہوچکی ہیں، اس کے بعد مکہ مکرمہ میں قیام کرے اور زیادہ وقت حرم شریف میں گزارنے کی کوشش کرے مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے بڑی عبادت طواف ہے، اس لیے جتنا وقت فرض، واجب اور سنت ادا کرنے کے بعد بچے وہ طواف میں لگانے کی کوشش کرے اگر اس دوران مزید عمرے کرنا چاہے تو وہ بھی کرسکتا ہے۔


آیامِ حج


آٹھ ذی الحجہ

یومِ ترویہ

پھر جب  آٹھ ذی الحجہ آجائے تو غسل کر کے حج کا احرام باندھ لے اور طواف کر کے سعی کرلے  (یہ سعی مقدم ہوگی،  یعنی اگر ابھی سعی کرلی تو پھر طواف زیارت کے بعد سعی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر ابھی سعی نہیں کی تو پھر طوافِ زیارت کے بعد سعی کرنا ھوگی)،  اس کے بعد منیٰ چلا جائے، آٹھ ذی الحجہ کی ظہر سے لے کر نو ذی الحجہ کے سورج نکلنے تک منیٰ میں رہے، 


نو ذی الحجہ

یومِ عرفہ

نو ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد عرفات روانہ ہوجائے، اگر مکتب والے اس سے پہلے لے جائیں تو پہلے چلا جائے اس میں بھی کوئی حرج نہیں، زوال سے پہلے  عرفات پہنچ جائے، کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جب ظہر کا وقت داخل ہوجائے تو ظہر پڑھ لے، اگر مسجد نمرہ کے امام کے پیچھے پڑھے تو ظہر اور عصر اکھٹی پڑھے، پہلے ظہر پھر عصر، اگر اپنے خیمہ میں پڑھنی ہو تو اذان دے کر اقامت کے ساتھ صرف ظہر پڑھے، پھر وقوف کرے، اس میں دعائیں پڑھے، کلمہ طیبہ، شہادت، تمجید استغفار، درود شریف وغیرہ جس قدر ہو سکے پڑھے، کھڑا ہوکر پڑھتا رہے، کھڑے کھڑے تھک جائے تو بیٹھ کر پڑھے، عصر کا وقت آئے تو اذان و اقامت کے ساتھ عصر پڑھے، پھر غروب تک اسی طرح دعاؤں اور ذکر میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے، غروبِ آفتاب  کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہو جائے، مغرب کی نماز عرفات میں نہ پڑھے، بلکہ  مزدلفہ میں جاکر ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ مغرب اور عشاء کی فرض نماز اکھٹے عشاء کے وقت میں پڑھے، پھر اس کے بعد پہلے مغرب کی سنت پھر عشاء کی سنت اور وتر وغیرہ پڑھے، پھر نیند کا تقاضا ہو تو سو جائے اور اگر جاگنا چاہے تو ذکر ، تسبیح، درود ، استغفار اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہے، تہجد پڑھے، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے، اس دوران یہاں سے تقریباً ستر کنکریاں بھی جمع کرلے، فجر کی نماز اول وقت  میں پڑھے، پھر کھڑے ہوکر وقوف کرے اور کچھ دیر دعا کرے، پھر اس کے بعد منیٰ آجائے، 


دس ذی الحجہ

یوم نحر

منیٰ میں اس دن (یعنی دس ذی الحجہ کو) صرف جمرہ عقبہ یعنی سب سے آخر والے (بڑے) شیطان کو سات کنکریاں مارے، اس کے بعد منیٰ میں یا حدودِ حرم کے اندر کہیں بھی قربانی کرے، پھر سر منڈائے (سر منڈانے کے بعد احرام کی ساری پابندیاں ختم ہوجائیں گی سوائے بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے کے، بیوی طوافِ زیارت کے بعد حلال ہوگی)،

 اب احرام کھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر مکہ مکرمہ آجائے اور طوافِ زیارت کرے، یہ طواف فرض ہے، اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد نفلی طواف کے بعد سعی نہ کی ہو تو اب طوافِ زیارت کے بعد سعی بھی کرے، پھر اس کے بعد منٰی واپس آجائے، رات کو منٰی میں رہے،


گیارہ ذی الحجہ

یومِ تشریق

 صبح ( یعنی گیارہ ذی الحجہ کی صبح) اٹھ کر زوال کے بعد ترتیب سے سب سے پہلے، پہلے والے شیطان کو الگ الگ سات کنکریاں مار کر ایک طرف ہو کر دعا کرے، پھر دوسرے شیطان کو اسی طرح سات کنکریاں مار کر کچھ دور ہو کر دعا کرے، پھر تیسرے شیطان کو سات کنکریاں مار کر دعا کیے بغیر واپس آجائے، یہ رات بھی منٰی میں گزارے،


بارہ ذی الحجہ

یومِ تشریق

  بارہ ذی الحجہ  کو پھر زوال کے بعد اسی طرح تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں مارے، اب اگر بارہ ذی الحجہ کو ہی مکہ مکرمہ واپس جانا چاہے تو جا سکتا ہے اور اگر تیرہ ذی الحجہ کی صبح صادق تک منٰی میں رکے گا تو تیرہ ذی الحجہ کی رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) بھی کرنی پڑے گی، 


 طوافِ زیارہ 

دس سے بارہ ذی الحجہ کے دوران طوافِ زیارہ ضرور کرے، ورنہ  بارہ کے بعد طوافِ زیارہ  کرنے کی صورت میں تاخیر کی وجہ سے ایک دم لازم  ھو جائے گا، بہرحال یہ تمام افعال کرنے سے حج  الحمدُ للہ مکمل ہوگیا صرف طوافِ وداع باقی رہ گیا ہے،


طوافِ  وداع 

حج کا ایک واجب طوافِ وداع  جو باقی رہ گیا تھا جو آفاقی کے لئے لازمی ھے ۔ (نہ کرنے کی صورت میں دم دینا پڑے گا ۔ ) لہذا مکہ مکرمہ سے وطن واپس آتے وقت طوافِ وداع  ضرور کر کے آئے، یہ طواف واجب ہے۔





Share:

 السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُاللهِ وَبَرَكَاتُه


*مبارك عليكم شهر رمضان*

الْلَّھُم أَهِلَهُ عَليْنَا بِالْأمْنِ وَالإِيْمَانِ وَالْسَّلامَةِ وَالْإِسْلَامِ وَالْعَوْنٓ عَلَى الْصَّلاةِ وَالصِّيَامِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْآَنِ 

الْلَّھُمّ سَلِّمْنَا لِرَمَضَانَ وَسَلِّمْهُ لنا وَتَسَلَّمْهُ مِنّا مُتَقَبَّلاً يٓارٓبٓ العٓالِٓمينْ.

*كُلُّ عامٍ وأَنْتُمْ بِخَيْرٍ*


وَعَلَيْكُمْ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُاللهِ وَبَرَكَاتُه

Share: