حضرت مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ ھندوستان میں ایک بہت بڑے عالم اور بزرگ گزرے ھیں ۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا ذکریا رحمة اللہ علیہ کے خاندان میں سے تھے اور حضرت شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے ۔ اللہ تعالی نے انہیں علم و عمل کی دولت فراونی سے عطا فرمائی ھوئی تھی ۔ اس دولت کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے اُنہیں سچی زندگی بھی عطا فرمائی تھی ۔ وہ صحیح معنوں میں صداقت کا پیکر تھے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اُن کا دامن جھوٹ سے کھبی آلودہ نہ ھوا۔ اُن کی سچائی کا ایک حیران کن واقعہ ملاحظہ فرمائیں
انگریز حکومت کا دور تھا کہ ھندوؤں اور مسلمانوں میں ایک جھگڑا پیدا ھو گیا اور دیکھتے ھی دیکھتے یہ جھگڑا کافی شدت اختیار کر گیا ۔ جھگڑا کاندھلہ میں ایک زمین کے ٹکڑے پر تھا۔ مسلمان کہتے تھے کہ یہ قطعۂ زمین ہمارا ہے اور ہندو کہتے تھے کہ یہ ہماری ملکیت ہے ۔ چنانچہ انگریز کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا ۔ مقدمہ انگریز کی عدالت میں پہنچا تو آنگریز جج نے مقدمہ کی کاروائی شروع کر دی اور جب مقدمہ کی کاروائی آگے بڑھی تو مسلمانوں نے عدالت میں آ کراعلان کردیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا اگر ھمیں مل گیا تو ہم اس پر اللہ کا گھر ( مسجد) بنائیں گے ہندوؤں نے جب مسلمانوں سے یہ بات سنی تو انہوں نے بھی ضد اور جوش میں آ کر کہہ دیا کہ یہ ٹکڑا اگر ہمیں ملا تو ہم اس پر مندر بنائیں گے۔
جب یہ مقدمہ شروع ھوا تھا تو یہ انفرادی نوعیت کا ایک عام مقدمہ تھا لیکن فریقین کے مسجد اور مندر بنانے کے اعلانات سے اس مقدمہ نے اجتماعی ، جذباتی اور مذھبی شکل آختیار کر لی ۔ حتٰی کہ ایک طرف مسلمان جمع ہوگئے اور دوسری طرف ہندو اکٹھے ہوگئے اور یہ مقدمہ ایک خاص نوعیت کا بن گیا ۔ اب قریب تھا کہ کسی غلط فیصلے کے باعث سارے شہر میں ھندو مسلم فسادات پھیل جائیں اور قتل وغارت ہو جائے۔ خون خرابہ کا شدید خطرہ پیدا ھو گیا تھا ۔ بستی کے لوگ بھی بڑے حیران و پریشان تھے کہ نہ جانے صورت حال کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ انگریز جج بھی اپنی جگہ بہت پریشان تھا اور وہ چاھتا تھا کہ فریقین کے درمیان میں کوئی صلح وصفائی کا پہلو نکل آئے ورنہ ایسا نہ ہو کہ فساد کی یہ آگ اگر جل پڑی تو پھر اس کا بجھانا مشکل ہو جائے ۔ انگریز جج نے بہت سوچ بچار کے بعد فریقین کو ایک تجویز پیش کی ۔ تجویز یہ تھی کہ کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ آپ لوگ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا کوئی حل نکال لیں ۔ ہندوؤں نے ایک تجویز پیش کی کہ ہم آپ کو ایک مسلمان عالم کا نام تنہائی میں بتائیں گے ۔ آپ اگلی پیشی پر ان کو بلا لیجیے گا اور ان سے اس زمین کے متعلق پوچھ لیجئے گا اگر وہ کہہ دیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین ہے تو آپ یہ زمین ان کو دے دیجئے اور اگر وہ یہ کہیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین نہیں ہندوؤں کی ہے تو ہمیں دے دیجئے۔ جب جج نے دونوں فریقوں سے پوچھا تو دونوں فریق اسی پر راضی ہوگئے مسلمانوں کے دل میں یہ بات تھی کہ مسلمان جو بھی ہوا وہ مسجد بنانے کی ہی بات کرے گا ۔ چنانچہ انگریز جج نے مہینہ کے بعد کی تاریخ دے دی کہ اس دن آنا اور میں اس بڈھے کو بھی بلوالوں گا ۔ اب جب مسلمان باہر نکلے تو بڑی خوشیاں منارہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ باھر موجود ہندوؤں نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ تم نے عدالت میں یہ کیا کہہ دیا ، تم نے ایک مسلمان عالم کو حَکَم بنالیا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر جو کہے گا اسی پر فیصلہ ہوگا اب ہندوؤں کے دل مرجھا گئے اور مسلمان خوشیوں سے پھولے نہیں سماتے تھے ۔ لیکن اس انتظار میں تھے کہ دیکھیے اگلی پیشی میں کون مسلمان عالم آتا ھے اور کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہندوؤں نے اس شرط پر مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کا نام انگریز جج کو بتایا کہ مقررہ تاریخ تک اسے صیغہ راز میں رکھا جائے گا ۔ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے اور اللہ تعالی نے ان کو سچی زندگی عطا فرمائی ھوئی تھی ۔ عدالت نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو بھی سمن جاری کر دیئے کہ تاریخِ مقررہ پر عدالت میں آکر زمین کی ملکیت کے متعلق گواھی دیں ۔ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے جج کو جواب بجھوا دیا کہ میں نے یہ قسم کھا رکھی ھے کہ میں کھبی بھی کسی بھی انگریز کی شکل نہیں دیکھوں گا ۔ لھذا میں اپنی قسم کی وجہ آپ کی عدالت میں حاضر ھونے سے قاصر ھوں ۔ انگریز جج نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو دوبارہ پیغام بجھوایا کہ آپ براہ مہربانی تاریخ مقررہ پر عدالت آکر گواھی ضرور دیں کیونکہ آپ کے مذھب میں بھی فساد کو ختم کرنے اور دو فریقوں میں صلح کروانے کا حکم موجود ھے ۔ رھی بات آپ کی قسم کی تو آپ عدالت آکر میری طرف چہرے کا رخ کرکے کھڑے نہ ھونا بلکہ میری طرف پیٹھ کرکے کھڑے ھو جانا تاکہ آپ میری شکل نہ دیکھ سکیں۔ اس طرح آپ کی قسم بھی نہیں ٹوٹے گی اور میں اسے توھینِ عدالت بھی نہیں کہوں گا ۔
اب مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو عدالت جانے ہر کوئی اعتراض نہیں تھا چنانچہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ مقررہ تاریخ اور مقررہ وقت پر عدالت پہنچ گئے ۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ تشریف لائے ہیں تو وہ سوچنے لگے کہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ تو مسجد کی ھی بات کریں گے ۔ چنانچہ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ عدالت میں انگریز جج کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ھو گے ۔ جب انگریز جج نے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو پوچھا کہ مفتی صاحب ! آپ بتائیے کہ یہ زمین کا ٹکڑا کس کی ملکیت ہے؟ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کو چونکہ حقیقت حال کا پتہ تھا انہوں نے جواب دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا تو ہندوؤں کی ملکیت ہے اب جب انہوں نے یہ کہا کہ جہاں تک میں جانتا ھوں یہ قطعہ زمین ہندوؤں کا ہے تو انگریز جج نے پھر اگلی بات یہ پوچھی کہ کیا اب ہندو لوگ اس کے اوپر اپنا مندر تعمیر کرسکتے ہیں ۔ مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا جب ملکیت ان کی ہے تو وہ جو چاہیں کریں چاہے گھر بنائیں یا مندر بنائیں یہ ان کا اختیار ہے چنانچہ فیصلہ دے دیا گیا کہ یہ زمین ہندوؤں کی ہے مگر انگریز جج نے فیصلےکے اخیر میں ایک عجیب بات لکھی کہ:
*”آج اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا”*
جب انگریز جج نے یہ بات کہی تو اس وقت ہندوؤں نے کہا کہ آپ نے تو فیصلہ دے دیا ، اب ہماری بات بھی سن لیجئے ہم اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں کیونکہ جس مذھب کے ماننے والے اتنے سچے ھیں تو اُن کا نبی کتنا سچا ھو گا لھذا ھم آج یہ اعلان کرتے ہیں کہ ھم نے اسلام قبول کر لیا ھے اور اب ہم اپنے ہاتھوں سے یہاں مسجد بنائیں گے۔
اللہ اکبر کبیراً
مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ بیان دینے کے بعد جب عدالت سے باھر نکلنے لگے تو اُنہوں نے ایک نظر عدالت میں موجود مسلمانوں پر اس انداز سے ڈالی جیسے یہ کہہ رھے ھوں کہ کیا تمہیں اللہ پر بھروسہ نہیں ھے ؟ ۔
مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ جب عدالت سے باھر آئے تو باھر موجود مسلمانوں نے اُنہیں گھیر لیا اور استفسار کیا کہ آپ نے مسجد کے خلاف اور ھندوؤں کے حق میں بیان کیوں دیا تو مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میرے سامنے دو چیزیں تھیں ایک قطعۂ زمین جس پر مسجد بننی تھی اور دوسرا میرا دین جس پر میری غلط بیانی کی صورت میں کذب کا ایک بدنما دھبہ لگ جانا تھا تو میں کسی بھی صورت میں اپنے دین پر دھبہ برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ چونکہ میرے علم میں تھا کہ یہ زمین ھندؤں کی ھے اس لئے میں نے سچائی کا دامن نہیں چھوڑا اور پھر اللہ پاک نے اس کا انعام بھی مسلمانوں کو نقد ھی عطا فرما دیا کہ نہ صرف زمین جائز طریقے سے مسجد کو مل گئی بلکہ مسجد کے بنانے والے بھی ساتھ ھی مل گئے ۔
ایک اللہ والے کی زبان سے نکلی ہوئی سچی بات کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ بہت سے ہندوؤں نے بھی اسلام قبول کیا اور بعد میں اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے مسجد بھی بنائی۔کسی نے کیا ہی اچھی بات کہی ھے۔
جو بھی دل سے سچائی کے راستہ پر چلتا رہتا ہے
وھی کامیاب ہے جو سچ کے ساتھ کھڑا رھتا ھے